خیبر پختونخوا میں کنٹینر اسکول متعارف کرانے کا حکومتی فیصلہ
30 مارچ 2016خیبر پختونخوا کے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ (پی اینڈ ڈی) کے ایک اعلٰی عہدیدار خالد الیاس کہتے ہیں کہ اس منصوبے کے شروع میں تجرباتی بنیادوں پر صوبے کے کچھ آفت زدہ یا دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں اس قسم کے کنٹینر اسکول قائم کیے جا رہے ہیں۔ ’’یہ قدم دہشت گردی یا قدرتی آفات، جیسے کہ سیلاب یا زلزے کی وجہ سے متاثرہ اسکولوں میں فوری طور پر تعلیمی سلسلہ بحال کرنے کے لیے اٹھایا جارہا ہے۔‘‘
خالد الیاس نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ کوہستان، چترال، دیر اور شانگلہ کے علاوہ کئی دوسرے علاقوں میں بھی اس قسم کے کنٹینر یا ’فیبریکیٹڈ‘ اسکول قائم کیے جائیں گے تاکہ بچوں کی تعلیم کا سلسلہ مزید معطل نہ رہے۔
خالد الیاس کے بقول اس قسم کے اسکول نہ صرف جلد تعمیر ہوسکتے ہیں بلکہ ان کنٹینر اسکولوں کے قیام پر دوسری عمارتوں کی نسبت لاگت بھی کم آتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم ایک مکمل کنٹینر اسکول کو تین ماہ کے عرصے میں اس قابل بنا سکتے ہیں کہ وہاں بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔ ایسے اسکولوں پر لاگت بھی دوسرے اسکولوں کے مقابلے میں قریب ایک چوتھائی کم آتی ہے اور ان اسکولوں کے استعمال کا عرصہ بھی معمول کی روایتی عمارتوں کے مقابلے میں دس سال زیادہ ہوتا ہے۔‘‘
ماہر تعمیرات شہاب بہادر کا اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا حکومت کا یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ اس قسم کے اسکولوں کی تعمیر جلد ہو سکے گی۔ انہوں نے کہا، ’’ترقی یافتہ ممالک میں ایسے کنٹینرز سے بنائی گئی عمارتوں کا رجحان زیادہ ہے، جس کا سبب ان کی پائیداری ہے۔ پاکستان کے لیے بھی یہ اچھا ثابت ہوسکتا ہے، شرط یہ ہے کہ ان کی مناسب اور اچھی ڈیزائننگ کی جائے۔‘‘
صوبائی محکمہ پی اینڈ ڈی کے مطابق موسم کی شدت سے محفوظ اور آسانی سے انسٹال کیے جانے والے ان کنٹینر اسکولوں میں شمسی توانائی اور فرنیچر کے علاوہ ملٹی میڈیا سہولیات بھی دستیاب ہوں گی، جن کی مدد سے اساتذہ بچوں کی جملہ تعلیمی ضروریات پوری کر سکیں گے۔
خالد الیاس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایسے ایک کنٹینر اسکول پر اندازاﹰ ایک کروڑ بیس لاکھ روپے لاگت آئے گی جبکہ اس کی ڈیزائننگ اور انسٹالیشن کے لیے مختلف قومی اور بین الاقوامی تعمیراتی اداروں کی مدد لی جا رہی ہے۔ ایسے پہلے تجرباتی اسکول کی تعمیر اسی سال متوقع ہے۔ ’’اس کے بعد اس منصوبے کا دائرہ کار وسیع کیا جائے گا اور دوسرے متاثرہ علاقوں میں بھی ضرورت کے پیش نظر اس قسم کے اسکول تعمیر کیے جائیں گے۔‘‘
صوبائی وزیر تعلیم محمد عاطف کے بقول کنٹینر اسکولوں پر تجرباتی بنیادوں پرکام شروع کر دیا گیا ہے۔ ’’اس اقدام کا مقصد کسی بھی وجہ سے اسکولوں سے محروم علاقوں تک تعلیم کی سہولت پہنچانا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ اسکول تمام بنیادی سہولیات سے آراستہ ہوں گے۔
اس طرح کے اسکول پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت کے علاوہ جنوبی افریقہ، فلپائن اور ملائیشیا میں بھی قائم کیے جا چکے ہیں، جہاں ان کو بہت کامیاب تصور کیا جاتا ہے۔