1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا میں فوری انصاف کے لیے ڈی آر سی کی کامیابیاں

دانش بابر، پشاور18 مئی 2016

خیبر پختونخوا حکومت نے پولیس اسٹیشنوں اور عدالتوں پر مقدموں کا بوجھ کم کرنے کے لیے صوبائی سطح پر شہریوں کے آپسی تنازعات کے حل کے لیے ایک کونسل کی بنیاد رکھی ہے، جو کم دورانیے میں بیشتر مسائل کو حل بھی کرا چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ipxo
Polizei in Pakistan
تصویر: DW/D. Babar

سکھ برادری سے تعلق رکھنے والا پشاور کا رہائشی پروندرسنگھ گزشتہ پندرہ سالوں سے کپڑے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ تجارت کے دوران پیش آنے والے تنازعے کو جلد حل کرنے کے غرض سے وہ پشاور کے گلبرگ پولیس اسٹیشن میں قائم تنازعات کے حل کی کونسل ’ڈی آر سی‘ آئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں پر ان کو بہتر اور فوری انصاف مل جائے گا۔

پروندر سنگھ کہتے ہیں، ’’کاروباری لین دین میں ایک بندے پر میرے تیس لاکھ روپے بقایا ہیں، وہ قریب تین سال سے اس رقم پر قابض ہے۔ مجھے ایک قریبی دوست سے پتہ چلا ہے کہ ڈی آر سی میں میرا یہ مسئلہ جلدی حل ہوسکتا ہے۔ اس لیے میں یہاں آ گیا ہوں۔‘‘ پروندرسنگھ کے بقول یہاں پر دونوں فریقین کو ساتھ بٹھا کر ایک جرگے کی صورت میں تنازعے کو حل کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے پولیس کی زیرسرپرستی عوام کے معاشرتی تنازعات اور مسائل کو حل کرنے کے لیے مئی 2014 میں ’ڈسپیوٹ ریزولیوشن کونسل‘ قائم کی گئی تھی۔ ابتدا میں پشاور کے دو پولیس اسٹیشنوں میں یہ کونسل بنائی گئی تھی تاہم مستقبل میں یہ دائرہ وسیع کیا جائے گا۔

اس کونسل کے ساخت کے بارے میں ڈی آر سی گلبرگ کے سیکرٹری عبداللہ خلیل کہتے ہیں کہ ہر کونسل کل اکیس ارکان پر مشتمل ہے جس میں ہر روز تین ممبرز پر مشتمل پینل لوگوں کے تنازعات کو سنتے ہیں اور باہمی مشاورت کے بعد اس پر فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ حکومتی سطح پر سوچ وبچار کے بعد ڈی آر سی کے لیے کیمونٹی سے قابل احترام غیر سیاسی، غیر متنازعہ، دانشور، ریٹائرڈ سول اور مسلح افواج کے افسران، ماہرین تعلیم، تاجر اور وکلا کا انتحاب کیا جاتا ہے جو کہ رضاکارانہ طور پر لوگوں کی بھلائی کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔

سید مستقیم شاہ ایک اعلیٰ سرکاری عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد گزشتہ دو سالوں سے ڈی آر سی میں بطور جج کام کر رہے ہیں ان کے مطابق انہوں نے کم ہی عرصے میں جائیداد کے تنازعات، رقم کے لین دین، طلاق و خلع، پراپرٹی کے تنازعات، بارگیننگ اور گھریلوں ناچاقی وغیرہ کے کئی کیسز حل کروائے ہیں۔ ان کے بقول گزشتہ دو سال میں اس کونسل نے مجموعی طور پر1076 کیسز موصول ہوئے جس میں 423 کو پرامن طور پر حل کرلیا گیا ہے جبکہ پیچیدہ ہونے کی وجہ سے 69 تنازعات عدالت کے حوالے کیے گئے، جبکہ چند ایک پر ابھی فیصلہ کیا جانا ہے۔

مستقیم شاہ کا خیال ہے، ’’ڈی آر سی کی وجہ سے عوام کو بیشتر مسائل کے حل کے لیے عدالتوں کے چکر اور وکلاء کی بھاری فیس سے چٹکارہ مل گیا ہے۔ بہت سے مسائل پرامن انداز میں ان کی دہلیز پر حل ہو رہے ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے چھوٹے تنازعات کے علاوہ قتل کے کیس میں بھی دونوں فریقین کے باہمی رضار پر فیصلہ سنایا ہے جوکہ ڈی آر سی کی ایک بڑی کامیابی ہے۔

ایس پی کینٹ کاشف ذولفقار کا ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ڈی آر سی کی وجہ سے بہت سے کیسز آسانی کے ساتھ حل ہو رہے ہیں، جس سے عوام اور حکومت دونوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’گوکہ ڈی آر سی بھی روایتی جرگہ کی طرح کام کررہا ہے، اور اس طرز کی کمیٹیاں اور ٹیم ماضی میں بھی بنائے گئے تھے، تاہم یہ اس لحاظ سے زیادہ مضبوط اور پائیدار ہیں کیونکہ اس کو پولیس اور حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔‘‘

Polizei in Pakistan
سکھ برادری سے تعلق رکھنے والا پشاور کا رہائشی پروندرسنگھ گزشتہ پندرہ سالوں سے کپڑے کے کاروبار سے وابستہ ہیںتصویر: DW/D. Babar

اگر ایک طرف ڈی آر سی گزشتہ دو سال میں صوبہ بھر کے ہزاروں تنازعات کو حل کرنے میں کامیابی حاصل کرچکی ہے تو دوسری طرف پشاور کا باسی 55 سالہ معراج الدین اس کونسل کے فیصلوں سے نالاں ہیں۔ ان کے بقول، ’’جائیداد پر ہمارا جمیل احمد کے ساتھ ایک تنازعہ تھا، اس میں ہمارا کیس کافی مضبوط تھا۔ لیکن فیصلہ سنانے کے بجائے کونسل نے مقدمہ عدالت کے حوالے کردیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ کونسل آسانی کے ساتھ مسئلے کو حل کرسکتی تھی۔‘‘

اس کے برعکس پشاور ہی سے تعلق رکھنے والے جاوید کہتے ہیں کہ ڈی آر سی کی وجہ سے ناصرف ان کو جلد انصاف مل چکا ہے بلکہ بغیر کوئی رقم خرچ کیے ان تنازعہ بھی مکمل طور پر حل ہوگیا ہے جوکہ ان جیسے غریب لوگوں کے لیے کسی غنیمت سے کم نہیں ہے۔