خود فیصلہ کرنے والی کاریں
خودکار طریقے سے سفر کرنے والی کاریں تیار تو ہو چکی ہیں تاہم بغیر ڈرائیور کے کار کا سفر آسان فیصلہ نہیں ہے۔ اگر کوئی حادثہ ہوتا ہے تو کون ذمہ دار ہو گا؟ اور کیا لوگ اس کے لیے تیار ہیں کہ کاریں ان کے لیے خود فیصلہ کریں؟
انتہائی آرام دہ
مرسیڈیز بینز کا یہ پروٹوٹائپ، F015 دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ ایک خودکار گاڑی دیکھنے میں کس طرح کی ہو گی۔ اس میں ڈرائیور کی کوئی سیٹ ہو گی ہی نہیں اور مسافروں کا رُخ ایک دوسرے کی جانب ہے۔ یہ پروٹوٹائپ بھی سیلیکان ویلی میں ہی تیار کیا گیا ہے۔ یہ کار زیادہ سے زیادہ 125 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتی ہے۔
سیلیکان ویلی سے لاس ویگاس تک کا سفر
اس آؤڈی سیون میں بے شمار سینسرز لگے ہیں۔ رواں برس کے آغاز میں اس کار نے سیلیکان ویلی سے لاس ویگاس تک کا سفر کیا جہاں یہ CES ٹریڈ فیئر میں شریک ہوئی۔ 600 میل کے اس سفر میں ایک ڈرائیور تمام وقت اسٹیئرنگ کے پیچھے موجود رہا تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں وہ کنٹرول سنبھال سکے۔ تاہم اس سفر میں یہ سب کچھ درست رہا۔
کیا اصل ٹریفک میں سفر ممکن؟
گوگل اپنی تیار کردہ روبوٹک گاڑی کو کافی عرصے تک پہاڑی علاقوں میں بھی آزماتا رہا ہے۔ تاہم اب تک ایسی گاڑی میں ایک ڈرائیور ہر وقت موجود رہتا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ کنٹرول سنبھال سکے۔
بے صبرے لوگوں کے لیے نہیں
خودکار طریقے سے سفر کرنے والی کاریں انتہائی محفوظ ہیں۔ اگر سڑک پر صورتحال درست نہیں ہے تو اس کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ یہ اپنے سے آگے والی کار سے ایک محفوظ فاصلہ برقرار رکھتی ہے اور سامنے والی کار کے ساتھ بالکل جُڑ کر نہیں چلتی۔
ایک کار دوسری کی پیروی میں
یہ دو خودکار گاڑیاں جرمن شہر میونخ میں واقع ’یونیورسٹی آف بنڈس ویئر‘ کی طرف سے تیار کی گئی ہیں اور یہ ’میولے سنیریو‘ میں سفر کر رہی ہیں جس میں پیچھے والی کار ہمیشہ اپنے سے آگے والی کار کی پیروی کرتی ہے۔ یہ کاریں دراصل ملٹری روبوٹک مقابلے میں شریک ہیں جس میں انہوں نے ناہموار راستوں پر سفر کرنا تھا، جس میں یہ کامیاب رہیں۔
حادثے سے بچاؤ
زیادہ تر حادثات محدود نظارے کی وجہ سے پیش آتے ہیں مثال کے طور پر دھند جیسی صورتحال وغیرہ۔ ایسے میں تیز رفتاری سے سفر کرنے والے مناسب فاصلہ قائم نہیں رکھ پاتے۔ تاہم مصنوعی ذہانت رکھنے والی روبوٹک گاڑیاں ایسی غلطی نہیں کرتیں۔ مستقبل میں کاریں آپس میں بھی معلومات کا تبادلہ کریں گی اور آگے والی کار پیچھے آنے والی کاروں کو ٹریفک جام وغیرہ کے بارے میں آگاہ کر دے گی۔
ہر طرح کی معلومات حاصل کرنے کے لیے سینسرز
خودکار طریقے سے سفر کرنے والی یہ گاڑیاں اپنے ارد گِرد کی دنیا کو مختلف آنکھوں سے دیکھتی ہیں۔ گوگل کار ایک لیزر سینسر استعمال کرتی ہے جو اپنے ارد گرد ماحول کا سہہ جہتی یا تھری ڈی اسکین کرتا ہے۔
ایک لیزر اسکینر کی آنکھ سے دنیا کی تصویر
بنڈس ویئر یونیورسٹی کی کار غیر ہموار راستے پر سفر کر رہی ہے۔ لیزر ارد گرد کی چیزوں کو اسکین کرتی ہیں اور کمپیوٹر اس اسکین کی مدد سے ایک تھری ڈی نقشہ تیار کرتا ہے۔
سیٹلائٹ، راڈار اور آپٹیکل آئی کی مدد سے سفر
یہ روبوٹک گاڑیاں دیگر سینسرز کی مدد بھی حاصل کرتی ہیں۔ جرمنی کے فرانھوفر انسٹیٹیوٹ فار کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن FKIE کی تیار کردہ یہ گاڑی ایک یو ایس بی کیمرہ استعمال کرتی ہے جو اس کے لیے نظر کا کام کرتا ہے۔ ایک چھوٹا راڈار اور GPS سینسرز کے ذریعے یہ نقشے پر اپنی بالکل پوزیشن کو برقرار رکھتی ہے۔
میڈ ان جرمنی
جرمن کمپنی ڈائملر میں بھی ریسرچرز خودکار کاروں کے لیے آپٹیکل کیمرے کا استعمال کر رہے ہیں۔ وِنڈ اسکرین کے پیچھے لگے کیمرے دیکھتے ہیں کہ سڑک پر کیا ہو رہا ہے اور پھر اس کے مطابق کار کا کمپیوٹر فیصلہ کرتا ہے۔ ڈائملر کا تیار کردہ یہ حفاظتی نظام 2011ء میں جرمنی کے انوویشن ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔
حرکت کا ادراک پکسلز کی مدد سے
کار میں لگے سینسرز مختلف چیزوں کے بارے میں معلومات چھوٹے چھوٹے نقاط یا پکسلز کی صورت میں جمع کرتے ہیں۔ کمپیوٹر اس بات کا ادراک کرتا ہے کہ پکسلز کی مدد سے بننے والی تصویر میں سے کون سے حصے کس رفتار سے حرکت کر رہے ہیں۔ اس طرح کمپیوٹر کو معلوم ہوتا ہے کہ کار کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔
بریک لگائی جائے یا پھر بچ کر گزرا جائے
روبوٹک کار کا کمپیوٹر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ سامنے آنے والا کوئی فرد یا چیز کس طرح حرکت کرے گی اور پھر اس کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اس تصویر میں سڑک پر آنے والے شخص کو نارنجی رنگ سے ظاہر کیا گیا ہے جو خطرے کی علامت ہے جبکہ بائیں جانب ٹریفک سبز ہے مطلب اس طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔