1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خود ساختہ ’جہادیوں‘ کے ہاتھوں ایک عالمی مذہب کی ساکھ کو خطرہ

Claudia Mende / امجد علی7 جون 2016

کیا اسلام تشدد کا سبق دیتا ہے؟ تجزیہ نگار کلاؤڈیا مینڈے کے مطابق خود ساختہ ’جہادیوں‘ کے ہاتھوں ایک عالمی مذہب یعنی اسلام کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ اُن کے خیال میں قرآن پر تنقیدی نقطہٴ نظر سے غور انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/1J20B
Islamischer Staat Kämpfer Mohammed Emwazi
یہ تصویر مانیٹرنگ گروپ SITE کی جاری کردہ ایک ویڈیو میں سے لی گئی ہے، جس میں دہشت گرد محمد اموازی عرف ’جہادی جان‘ کو چاقو لہراتے دکھایا گیا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/SITE Intel Group

خود ساختہ ’جہادی‘ اور پیرس اور برسلز میں بے گناہوں کو اندھا دھند ہلاک کرنے والے دہشت گرد اپنے اعمال کے لیے جواز کے طور پر قرآن کی آیات پیش کرتے ہیں۔ دنیا کے 1.6 ارب مسلمانوں کی 98 فیصد پُر امن اکثریت کے لیے یہ صورتحال ہولناک ہے کیونکہ یوں اُن کے مذہب میں تشدد کے مسئلے کی موجودگی کا تاثر عام ہو رہا ہے۔

اسلام کے ناقدین اور مغربی دنیا کی رائے عامہ کا ایک بڑا حصہ اسلام کو ایک جنگجویانہ کردار کا حامل مذہب گردانتا ہے۔ اس کے لیے وہ قرآن کی دوسری سورۃ کی آیت نمبر 191 اور چوتھی سورۃ کی آیت نمبر 89 کا حوالہ دیتے ہیں، جہاں کافروں کو قتل کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

مذہبیات کے ماہرین متفق ہیں کہ اسلام اپنی بنیادی تعلیمات کے لحاظ سے بائبل سے زیادہ تشدد کا پرچار نہیں کرتا۔ کونراڈ آڈیناؤر فاؤنڈیشن سے وابستہ اسلامی علوم کے ماہر تھوماس فولک کہتے ہیں، ’اگر قرآن تشدد کو جائز قرار دیتا ہے تو ایسی عبارتیں یہودیوں اور مسیحیوں کی مقدس کتابوں میں بھی ہیں، تنیوں مذاہب کی مقدس کتابوں کی تشدد کو سراہنے، مختلف عقیدے کے حامل افراد کے مقابلے میں خود کو برتر قرار دینے اور خواتین کا ذکر حقارت سے کرنے والی عبارتیں آج کے قاری کو پریشان کرتی ہیں‘۔

بنیادی سوال: اگر قرآن میں موجود ان آیات کا حوالہ دے کر گزرے چَودہ سو برسوں کے دوران اسلام کے نام پر اس قدر ہولناک تشدد روا نہیں رکھا گیا، جیسا کہ آج کل داعش روا رکھ رہی ہے تو پھر آج ہی کیوں؟

فرینکفرٹ کی گوئٹے یونیورسٹی میں اسلامی سماج اور ثقافت کے پروفیسر بیکیم آگائی کے مطابق جس دور میں قرآن اُترا، اُس دور کے تاریخی حالات مختلف تھے:’’تب اقوام، قبائل اور سلطنتوں کے مابین امن کی بجائے جنگ ایک معمول کی بات ہوا کرتی تھی، اسلام جنگ کی بات کرتا ہے تو ساتھ امن کی بھی بات کرتا ہے لیکن یہ کہ اُس دور میں تشدد کے جائز یا ناجائز ہونے کا فیصلہ ریاست کرتی تھی نہ کہ عام مسلمان انفرادی طور پر۔‘‘

Symbolbild - Koran
’مسلمانوں کو انفرادی طور پر ناقدانہ نظروں سے قرآن کا مطالعہ کرنا ہو گا‘تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh

آگائی کے بقول آج کل کے مذہبی تعلیم سے بے بہرہ ’جہادی‘ قرآنی آیات کو سیاق و سباق سے الگ کر کے دیکھتے ہیں:’’آج مذہب پر سیاسی رنگ چڑھ چکا ہے، سنّی علماء اپنے اپنے ملک کی سیاسی مقتدرہ کی ناکامی کو موضوع نہ بنانے کی وجہ سے نہ صرف اپنی اخلاقی اتھارٹی کھو چکے ہیں بلکہ وہ انتہا پسندوں کی کارروائیوں کی بھرپور مذمت بھی نہیں کر رہے، مسلمانوں کو انفرادی طور پر ناقدانہ نظروں سے قرآن کا مطالعہ کرنا ہو گا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید