خود اذیتی، ایک عالمی مسئلہ
17 نومبر 2011معتبر طبی جریدے Lancet کے لیے کی جانے والی اس تحقیق میں نوٹ کیا گیا ہے کہ ان بچوں میں سے دس فیصد ایسے ہوتے ہیں، جو ابتدائی بلوغت تک خود کو جسمانی اذیت پہنچانے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔ اس عمل کی وجہ کم سنی کے دوران جذباتی تناؤ بیان کیا گیا ہے۔
محققین کے بقول ان کی اس تحقیق کے نتائج سے متعدد بچوں میں پائے جانے والے ایسے رحجانات کو بدلنے میں غیر معمولی مدد ملےگی۔ اس تحقیقی ٹیم میں شامل ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ جو بچے خود کو جسمانی طور پر نقصان پہنچانے کی عادت کا شکار ہوتے ہیں، وہی بعد ازاں خود کشی کے مرتکب بھی ہو سکتے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں خود کشی کے عمل پر تحقیق کرنے والے شعبے سے وابستہ کیتھ ہوٹن کہتے ہیں کہ اس ریسرچ کے نتائج غیر معمولی ہیں اور ایسے بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے اس ریسرچ میں جمع کیے گئے ڈیٹا کو پرکھا تھا۔
آسٹریلیا میں اس تحقیقی ٹیم کے سربراہ جارج پیٹن کے بقول بچے جب ٹین ایج کے وسط میں ہوتے ہیں، تو انہیں کئی طرح کے نفسیاتی اور جذباتی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے اور خود اذیتی کا عمل دراصل ان جذباتی مسائل پر قابو پانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے بچے جو خود کو نقصان پہنچاتے ہیں، ان میں زیادہ تر معمولی دماغی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کا علاج ناگزیر ہوتا ہے۔ جارج پیٹن کے مطابق خود اذیتی کا عمل پختہ ہو کر کسی کو خود کشی پر بھی مائل کر سکتا ہے۔
خود اذیتی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ یہ زیادہ تر لڑکیوں یا پندرہ سے چوبیس برس تک عمر کی خواتین میں پایا جاتا ہے۔ ماہرین کے بقول اس عمل میں عالمی سطح پر اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
عالمی ادارہء صحت کے اعداد و شمار کے مطابق ہرسال قریب ایک ملین افراد خود کشی کرتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ 45 برسوں کے دوران خود کشی کی شرح میں ساٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک