خوبصورت دانت، ہاتھی کی جان کے دشمن
گزشتہ ایک عشرے میں ہاتھیوں کی تعداد میں 60 فیصد سے زیادہ کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ افریقہ میں گوشت اور ہاتھی دانت کے حصول کے لیے روزانہ اندازاً ایک سو ہاتھی ہلاک کیے جا رہے ہیں۔ ہاتھیوں کے رہنے کی جگہیں بھی کم ہوئی ہیں۔
مسلسل کم ہوتی تعداد
کوئی ایک صدی پہلے افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد ایک کروڑ تھی۔ آج افریقی ہاتھیوں کی تعداد ساڑھے چار لاکھ اور سات لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہے جبکہ ایشیا میں جنگلی ہاتھیوں کی تعداد پینتیس اور چالیس ہزار کے درمیان ہے۔ گزشتہ ایک عشرے میں ہاتھیوں کی مجموعی تعداد میں باسٹھ فیصد کمی کے پیشِ نظر ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگلے دَس برسوں کے اندر اندر ہاتھی تقریباً معدوم بھی ہو سکتے ہیں۔
ہاتھی دانت کی قیمتیں آسمان سے جا لگیں
ہلاک ہونے والے افریقی ہاتھیوں کے دانت زیادہ تر ایشیائی منڈی میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں چین میں آئیوری (ہاتھی دانت) کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جس سے ہاتھیوں کو ہلاک کرنے کا رجحان بھی بہت بڑھ گیا ہے۔ اسی سال جولائی میں زیورخ ایئر پورٹ پر 262 کلوگرام ہاتھی دانت پکڑا گیا۔ آٹھ سوٹ کیسوں میں بند یہ ہاتھی دانت تین چینی مسافروں کے پاس سے بے ترتیب تلاشی کے دوران برآمد ہوا تھا۔
ہاتھی دانت خونریز تنازعات کا سبب
خیال کیا جاتا ہے کہ منشیات اور انسانوں کی تجارت کے بعد جنگلی حیات کی تجارت تیسرا بڑا غیر قانونی کاروبار ہے۔ ہاتھی دانت کا غیر قانونی کاروبار براعظم افریقہ میں گونا گوں تنازعات کا باعث بن رہا ہے۔ مثلاً الشباب، لارڈز ریزسٹنس آرمی اور بوکو حرام جیسی شدت پسند تنظیمیں ہاتھی دانت بیچ کر ہتھیار خرید رہی ہیں۔ چین کی بلیک مارکیٹ میں ایک پاؤنڈ آئیوری ایک ہزار ڈالر (903 یورو) میں خریدی جا سکتی ہے۔
ہاتھیوں کے ساتھ پُر امن بقائے باہمی
بین الاقوامی سطح پر ہاتھی دانت کی تجارت پر پابندی کے باوجود ہاتھیوں کو بڑی تعداد میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایس اور ایس ایلیفینٹس جیسی تنظیموں کے مطابق مقامی کمیونٹیز کو یہ سمجھانا بہت ضروری ہے کہ افریقہ کے ایکو سسٹم (ماحولیاتی نظام) کے لیے ہاتھی کتنی اہمیت کے حامل ہیں اور کیسے وہ ایکو ٹورازم (ماحولیاتی سیاحت) اور مشترکہ کاشتکاری تکنیکس کی مدد سے روزگار بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
ہاتھیوں کے رہنے کی جگہیں کم ہوتی ہوئی
غیر قانونی شکار کے علاوہ ہاتھیوں کو یہ بڑا مسئلہ بھی درپیش ہے کہ ان کے رہنے کی جگہیں مسلسل کم ہو رہی ہیں۔ چند عشروں کے اندر اندر افریقہ میں انسانی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور یوں ہاتھیوں کے لیے جگہ مزید تنگ ہو گئی ہے۔ زرعی زمین یا چراگاہوں کے لیے بڑے رقبے پر پھیلے جنگلات صاف کر دیے گئے ہیں۔ کچھ ہاتھی پکڑ کر سدھا لیے گئے ہیں اور اُنہیں لکڑیوں کی غیر قانونی تجارت میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
امید کی کرن؟
اس سال جولائی کے اواخر میں امریکی صدر باراک اوباما نے ایسے منصوبوں کا اعلان کیا، جن کا مقصد امریکا میں ہاتھی دانت کی زیادہ تر تجارت پر مؤثر پابندی عائد کرنا ہے اور اس کی برآمدات کے سلسلے میں نئی پابندیاں متعارف کروانا ہے۔ واضح رہے کہ چین کے بعد امریکا ہاتھی دانت کی دوسری بڑی منڈی ہے۔ چین نے بھی اپنی مقامی منڈیوں میں آئیوری کی تجارت پر پابندیوں کا عزم ظاہر کیا ہے۔