خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف پاکستانی براڈ کاسٹر کی مہم
27 اکتوبر 2016مسلسل ملنے والی بے طلب توجہ سے تنگ آ کر پاکستانی براڈ کاسٹر انیلا انصاری نے اپنے ریڈیو پروگرام میں خواتین کو ہراساں کرنے والے نازک موضوعات پر بات کرنے کی مہم کا آغاز کیا ہے۔ انیلا انصاری دو عشروں سے برطانیہ میں مقیم تھیں۔
اس سال کے آغاز میں جب وہ پاکستان واپس لوٹیں تو اُن کے ذہن میں ایسا کچھ کرنے کا خیال آیا۔ در اصل انیلا نے محسوس کیا کہ وہ عوامی مراکز میں جہاں کہیں بھی جاتی ہیں، مردوں کی نظریں اُن کا پیچھا کرتی ہیں۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے مرکز میں واقع ریڈیو نائنٹی نائن کے دفتر میں خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انیلا انصاری نے کہا،’’ میں مختلف دفاتر اور ریستورانوں میں جہاں بھی گئی میں نے مردوں کی نگاہوں کو اپنا پیچھا کرتے ہوئے پایا۔‘‘ انصاری نے مزید کہا،’’ تب میں نے اپنے دفتر میں کام کرنے والی دوسری خواتین سے پوچھا کہ کیا صرف مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے یا اُنہیں بھی ایسے تجربات ہوئے ہیں۔‘‘
انیلا انصاری کے مطابق دفتر کی ہر ساتھی خاتون کا کہنا تھا کہ یہ رویہ یہاں عام ہے۔ براڈ کاسٹر انیلا انصاری نے جب مرد حضرات سے اس موضوع پر بات کی تو اُنہیں اندازہ ہوا کہ بہت سے مردوں کے نزدیک تو یہ کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ انصاری نے بتایا،’’ بعض مردوں نے تو میرے سوال کو ہنسی میں اڑا دیا، بعض البتہ کچھ ناراض بھی ہوئے۔‘‘ انیلا نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بعض مرد حضرات نے خواتین کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا۔
اُن کا کہنا تھا کہ عورتیں اپنے لباس کے انتخاب اور میک اپ کی وجہ سے مردوں کو خود اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ انیلا انصاری نے بتایا کہ معاشرے میں موجود اِس مسئلے کے حل کے لیے ریڈیو سے پروگرام کا آغاز اس لیے کیا گیا ہے تاکہ اِس کی وجہ سے خواتین کی ذہنی صحت، تعلیم اور روزگار پر پڑنے والے اثرات پر بات کی جا سکے۔
خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف ریڈیو کیمپین میں پروگرام سننے والوں کو ٹیلیفون کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے بھی کہا جاتا ہے۔ ریڈیو پروگرام میں موضوع کو اجاگر کرنے کے لیے ایسے اعلانات بھی نشر کیے جاتے ہیں،’’اگر کوئی مرد آپ کی بہن کو گھور رہا ہو تو آپ یہ بات پسند نہیں کریں گے۔‘‘
ریڈیو ڈائریکٹر نجیب احمد کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کو شروع ہی سے اُن کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ نجیب احمد کا کہنا تھا،’’ ہمارے ملک میں اس قسم کے مسائل کو چھپایا جاتا ہے۔ اِن پر بات نہیں کی جاتی۔‘‘ براڈ کاسٹر انیلا انصاری کا کہنا تھا کہ خواتین کو مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کے خلاف ریڈیو نائینٹی نائن کی مہم صرف پہلا قدم ہے۔
انصاری کے مطابق مسئلہ کلّی طور پر اُس وقت تک حل نہیں ہو گا جب تک حکومت کی جانب سے اقدامات نہ اٹھائےجائیں۔ خیال رہے کہ پاکستان اس برس صنفی عدم مساوات کے انڈکس پر دنیا کا دوسرا بدترین ملک قرار پایا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کے مطابق پاکستان خواتین اور مردوں کے مابین پائے جانے والے عدم مساوات کے شکار ممالک کی فہرست میں 144 ریاستوں میں سے 143 ویں نمبر پر ہے۔