1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خلیج فارس میں پہلا فرانسیسی فوجی اڈہ قائم

26 مئی 2009

فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے آج خلیجِ فارس کی دفاعی لحاظ سے اہم آبنائے ہرمز میں پہلے فرانسیسی فوجی اڈے کا افتتاح کیا۔ وہاں تقریباً 450 فوجی تعینات رہیں گے۔ بحیرہء ہند میں یہ تیسرا فرانسیسی فوجی اڈہ ہے۔

https://p.dw.com/p/HxqU
خلیج فارس میں فرانس کا یہ پہلا فوجی اڈہ ہےتصویر: AP

اب تک بحیرہء ہند میں فرانس کے دو فوجی اڈے ہیں، ایک Reunion میں افریقی ساحلوں پر اور دوسرا مشرقی افریقی ملک جبوتی میں۔ اب فرانس معاشی، سیاسی اور فوجی اعتبار سے خلیجی ممالک میں اپنے قدم جمانے کی کوششیں کر رہا ہے اور متحدہ عرب امارات نے اُسے کھلے دل سے خوش آمدید کہا ہے۔ پہلے نہیں تو کم از کم سن دو ہزار تین کی عراق جنگ کے بعد سے تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی عرب ریاستوں کی پالیسی یہ ہےکہ محض امریکہ پر ہی تکیہ کرنے کی بجائے دیگر دوست طاقتوں کو بھی خلیج میں لایا جائے۔

صدام حسین کا تختہ الٹنے کا امریکی فیصلہ خلیجِ فارس کے ساتھ ساتھ واقع ممالک کیلئے اچانک اور بڑا دھچکہ تھا۔ اِس حملے سے وہ مضبوط دیوار گر گئی، جوعراقی حکومت کی صورت میں ایران کے خلاف سینہ سپر تھی۔ اِس دیوار کے گرنے سے ایران کے ایک علاقائی طاقت کی حیثیت اختیار کرنے کا عمل تیز تر ہو گیا اور یوں حالات خلیجی عرب طاقتوں کی مرضی کے بالکل برعکس شکل اختیار کر گئے۔ اُن کے ہاں یہ احساس شدید ہوتا گیا کہ گویا جارج ڈبلیو بُش کی قیادت میں امریکہ دانشمندی کے ساتھ قدم اٹھانے اور اپنے اقدامات کے دفاعی اثرات کا اندازہ لگانے کی صلاحیت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔

یہ تھا وہ پس منظر، جس میں گذشتہ برس فرانس اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ابوظہبی میں ایک فرانسیسی فوجی اڈے پر اتفاقِ رائے عمل میں آیا۔ دیگر خلیجی عرب ریاستیں بھی اِسی طرح کی حکمتِ عملی اختیار کر رہی ہیں۔ ابوظہبی کے ایمیل حُکائم فوجی امور کے ماہر ہیں اور اُن کے خیال میں خلیجی عرب ریاستیں اپنے موجودہ طرزِ عمل سے اپنی سلامتی کو ایک بین الاقوامی ذمہ داری میں بدل رہی ہیں

’’یہ ریاستیں یہ بات جانتی ہیں کہ بالآخر اُن کی سلامتی کا انحصار اسلحے کے نظاموں اور اَفواج پر نہیں بلکہ سب سے زیادہ عالمی برادری کا ایک حصہ ہونے پر ہے۔ چنانچہ وہ ہر اہم بین الاقوامی طاقت کو اپنی سلامتی کے ایک حصے کا ذمہ دار بنا رہے ہیں۔ اِسی لئے پیرس کا لُوور میوزیم بھی یہاں آ رہا ہے اور فرانسیسی فوجی اڈہ بھی، اِسی بناء پر واشنگٹن کی جورج ٹاؤن یونیورسٹی قطر میں بھی ہے، خلیجی عرب ریاستیں زیادہ سے زیادہ دوست بنانا چاہتی ہیں۔ یہ بہت ہی سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔ وہ جانتے بوجھتےعالمگیر سیاسی اور اق‍تصادی ڈھانچوں کا ایک حصہ بن رہے ہیں۔‘‘

اُدھر ایران میں خلیجِ فارس میں مغربی دُنیا کی بڑھتی ہوئی موجودگی تشویش کا باعث بن رہی ہے۔ ایمیل حُکائم کہتے ہیں:’’خلیجی عرب ممالک علاقائی سلامتی کو ایک بین الاقوامی مسئلہ بنانا چاہ رہی ہیں۔ اِس کے برعکس ایران علاقے سے تمام غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء کا مطالبہ کر رہا ہے، تاکہ خطے میں ایران کو بالادستی حاصل رہے۔ تاہم خلیجی عرب ممالک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس کے ساتھ چاہیں، اتحاد بنائیں۔ دوسری طرف ایران کو بھی ایسی ضمانتیں حاصل کرنے کا حق ہے کہ اُسے حملے کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ اِن سبھی تقاضوں کے پورا ہونے کا انحصار بہت سے عوامل پر ہے، جن میں بیرونی عوامل بھی شامل ہیں۔‘‘

ابو ظہبی میں اپنے اِس دورے کے دوران سارکوزی رافاعیل نامی فرانسیسی جنگی طیارے بھی فروخت کرنے کی کوشش کریں گے۔ متحدہ عرب امارات نے کئی سال پہلے فرانس سے میراج طرز کے ساٹھ جیٹ طیارے اور چار سو ٹینک آرڈر کئے تھے۔ سارکوزی کی یہ بھی کوشش ہو گی کہ آنے والے برسوں میں جب متحدہ عرب امارات میں ایٹمی توانائی کا پُر امن استعمال شروع ہو تو ایٹمی توانائی سے متعلق فرانسیسی کمپنیوں کو بھی آرڈر ملیں۔ ابوظہبی متعینہ فرانسیسی سفیر نے خلیجی عرب دُنیا میں فرانس کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں اتنا ہی کہا کہ فرانسیسی وہاں موجود ہونا چاہتے ہیں، جہاں اُنہیں موجود ہونا چاہیے۔ متحدہ عرب امارات میں فرانس کو امریکہ کے متبادل کے طور پر تو یقیناً نہیں لیکن ایک اہم اضافے کے طور پر ضرور دیکھا جا رہا ہے۔

کارسٹن کیوہن ٹَوپ،عمان / امجد علی