خلیجی تعاون کونسل کا ایران کے خلاف اتحاد پر زور
20 دسمبر 2011اجلاس میں عرب رہنماؤں نے شام سے مطالبہ کیا کہ وہ ’’فوری طور پر قتل و خونریزی بند کرے، مسلح تنازعے کی تمام علامات اٹھا لے اور قیدیوں کو رہا کرے۔‘‘
شام کے نائب وزیر خارجہ فیصل المقداد نے کئی ہفتوں کی پس و پیش کے بعد پیر کو عرب ملکوں سے طے پانے والے اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے میں شام سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ معاہدے کے تمام نکات پر عملدرآمد کرے اور ملک میں عرب لیگ کے مبصرین کو آنے کی اجازت دے۔
اجلاس کی ایک اور خاص بات شام کے حلیف ایران کو جاری کیا جانے والا انتباہ تھا۔ عرب ملکوں نے ایران سے کہا کہ وہ خلیجی تعاون کونسل کے رکن ملکوں کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا سلسلہ بند کرے۔ کونسل نے ایران کی جانب سے عرب ملکوں میں فرقہ وارانہ تنازعات کو ابھارنے پر بھی تشویش ظاہر کی۔
فروری اور مارچ میں سعودی عرب نے عرب ملک بحرین میں شیعہ اکثریت کی بغاوت کچلنے میں مدد دینے کے لیے اپنے ایک ہزار فوجی وہاں بھیجے تھے۔ اس کے بعد سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں کافی کشیدگی پیدا ہو چکی ہے۔
علاوہ ازیں ایران کے اتحادی ملک شام کی غالب سنی آبادی بھی شیعہ خاندان کے زیر حکمرانی ہے۔
خلیجی رہنماؤں نے شاہ عبد اللہ کی اس تجویز سے بھی اتفاق کیا کہ عرب ملکوں کو اپنے اب تک کے باہمی تعاون کو وسیع تر اتحاد میں بدل دینا چاہیے۔
شاہ عبد اللہ نے پیر کو ایران کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ خطے کے بعض ممالک سعودی عرب اور اس کے ہمسایہ عرب ملکوں کی سلامتی کو ہدف بنا رہے ہیں۔
خلیجی تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس میں کونسل کی رکنیت کے خواہش مند ملکوں اردن اور مراکش میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے خلیجی ترقیاتی فنڈ قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
اس فنڈ کے تحت دونوں ملکوں کو ڈھائی ڈھائی ارب ڈالر دیے جائیں گے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: امجد علی