1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خفیہ اطلاعات کا تبادلہ: ڈچ وزیر داخلہ نے غلطی مان لی

عابد حسین30 مارچ 2016

ہالینڈ کے وزیر داخلہ نے برسلز حملوں کی اطلاع کے بارے میں اپنی غلطی کا اغتراف کر لیا ہے۔ وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ امریکی خفیہ اداروں نے برسلز حملوں میں ملوث بھائیوں کے بارے میں خفیہ معلومات دی تھیں۔

https://p.dw.com/p/1IMEw
برسلز حملوں کے مرحومین کے لیے رکھے گئے پھول اور شمعیںتصویر: DW/D. Regev

آج بدھ کے روز ہالینڈ کے وزیر داخلہ نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے پارلیمنٹ کو لکھے گئے خط میں حقیقت کے منافی لکھا تھا کہ امریکی خفیہ ادارے نے مطلع کیا تھا کہ بیلجیم کے دو انتہا پسند بھائی برسلز میں دہشت گردانہ حملے کر سکتے ہیں۔ ڈچ وزیر داخلہ ارڈ فان ڈیئر اسٹوئر نے ملکی پارلیمنٹ کو ایک دوسرے خط میں بیان کیا کہ برسلز میں دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہونے والے بھائیوں کے بارے میں معلومات امریکی ادارے فیڈرل بیورو برائے تفتیش نے فراہم نہیں کی تھیں بلکہ یہ معلومات نیویارک پولیس کی جانب سے ارسال کی گئی تھیں۔

ہالینڈ کے وزیر داخلہ کی پہلی غلطی یہ تھی کہ وہ بیلجیم کے دو مسلمان بھائیوں ابراہیم البکروئی اور خالد البکروئی کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی اطلاع بروقت بیلجیم حکام کو پہنچانے سے قاصر رہے تھے۔ اور دوسری غلطی انہوں نے یہ کی کہ اطلاع کا ذریعہ غلط بیان کیا۔ وزیر نے پہلے بتایا کہ یہ خفیہ اطلاع امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی کی جانب سے موصول ہوئی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اطلاع نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کے انٹیلیجنس ونگ کی ہے اور ہالینڈ کے امریکی دارالحکومت میں واقع سفارت خانے نے اِسے اپنے ملک کو روانہ کیا تھا۔

Brüssel Terroranschläge Fahndung Verdächtige Brüder El Bakraoui
ابراہیم البکروئی اور خالد البکروئیتصویر: picture-alliance/dpa/Interpol

برسلز کے دہشت گردانہ حملوں میں بتیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان حملوں کے تناظر میں بیلجیم کے سکیورٹی اور خفیہ اداروں کی غلطیوں کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ اِن حملوں نے یورپی ملکوں کے درمیان خفیہ اطلاعات کے تبادلے میں پائی جانے والی کمزوریوں کو آشکار کر دیا ہے۔ ہالینڈ کے داخلہ حکام کو سولہ مارچ کو یہ اطلاع موصول ہو چکی تھی کہ بیلجیم سے تعلق رکھنے والے دونوں بھائی دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ دونوں بیلجیم حکام کو مطلوب تھے۔ امریکی اطلاع پر بروقت عمل ہو جاتا تو ان کو گرفتار کرنے سے حملوں سے محفوظ رہا جا سکتا تھا۔

ابراہیم البکروئی بیلجیم کے داخلی سلامتی کے اداروں کو اُس کے مجرمانہ ماضی کی وجہ سے مطلوب تھا جبک اُس کا بھائی خالد البکروئی دہشت گردی، انتہا پسندی اور جہادیوں کی بھرتی کرنے کے الزامات میں مطلوب تھا۔ ابراہیم البکروئی گزشتہ برس جولائی تک بین الاقوامی سطح پر مطلوب افراد کی فہرست میں شامل نہیں تھا اور اُس وقت چودہ جولائی کو وہ ترکی سے ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم کے ہوائی اڈے پر پہنچ کر روپوش ہو گیا تھا۔ دوسری جانب خالد البکروئی بھی گزشتہ برس اکتوبر سے تقریباً روپوشی کی زندگی بسر کر رہا تھا اور ایسے افراد کے بارے میں بیلجیم سکیورٹی حکام غافل تھے۔