1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خاندان کا عالمی دن

کشور مصطفیٰ15 مئی 2016

پندرہ مئی کو دنیا بھر میں ’انٹر نیشنل ڈے آف فیملی‘ یا خاندان کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس سال اس کا موٹو ہے ’خاندان، صحت مند زندگی اور پائیدار مستقبل۔‘

https://p.dw.com/p/1IoFI
تصویر: Getty Images/D. Silverman

ہر سال پندرہ مئی کو ’خاندان کے عالمی دن‘ کو منانے کا اعلان 1993ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس دن کو منانے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ اس سے مختلف برادریوں اور اقوام کی طرف سے فیملی یا خاندان کو دی جانے والی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔

اس کے علاوہ فیملی ڈے منانے کا اہم مقصد یہ بھی ہے کہ خاندانوں کو متاثر کرنے والے سماجی، اقتصادی اور آبادیاتی عوامل اور ان شعبوں میں پائے جانے والے مسائل کے بارے میں عوام میں شعور پیدا کیا جا سکے۔

اس مرتبہ عالمی دن کی مناسبت سے خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے نے ایک تفصیلی جائزہ شائع کیا، جس میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں فیملی یا متبادل خاندان کے تصور اور ترتیب و ہیئت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جس کی چیدہ چیدہ تفصیلات کچھ یوں ہیں۔

Symbolbild Religion und Homosexualität
بہت سے قدامت پرست معاشروں میں ہم جنس پرستی کا موضوع نہایت حساس مانا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Muheisen

سنگاپور

سنگاپور ایک متنوع مگر قدرے قدامت پسند معاشرہ ہے، جس میں ریاست کی طرف سے روایتی نیوکلیئر فیملی یا ایسے خاندانی تشکیل پر زور دیا جاتا ہے جس میں ماں باپ اور بچے ایک گھر میں ایک فیملی کی حیثیت سے رہتے ہیں۔

ملکی پالیسی میں سنگاپور کے باشندوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ شادی کریں اور بچے پیدا کریں۔ رہائشی فلیٹس وغیرہ کی خریداری میں شادی یا منگنی شدہ جوڑے خریداروں کی لائن میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ 35 سال سے کم عمر کے سنگل افراد صرف ری سیل مارکیٹ سے اپنے لیے فلیٹ وغیرہ خرید سکتے ہیں۔

سنگاپور میں ہم جنس پرست افراد کی شادی کو قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا اور انہیں بچے پالنے اور پراپرٹی خریدنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ہے۔ اس ملک میں رواں سال یعنی 2016 ء میں پہلی بار حکومت نے اپنے بجٹ میں غیر شادی شدہ ماؤں اور سنگل یا تنہا بچے کی پرورش کرنے والی خواتین کے لیے 16 ہفتے کی تنخواہ کے ساتھ چھٹی کو شامل کیا۔ یہ سہولت اب تک محض شادی شدہ خواتین کو میسر تھی۔

Singapur Arbeiter aus Indonesien
سنگاپور میں آباد مختلف نسلی گروپوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ہر شعبے میں کام یا مزدوری کرتی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/A. Winarti

ملائیشیا

کثیر نسلی ملک ملائیشیا میں دو نسلی گروپوں سے تعلق رکھنے والے مردوں اور عورتوں کے مابین شادی پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا تاہم اگر ان میں سے کسی ایک کا تعلق مالے کے نسلی گروپ سے ہو اور اُسے ملکی آئین کے تحت پیدائشی طور پر مسلم مانا جائے اور وہ کسی غیر مسلم سے شادی کرنا چاہے تو یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔

ملائیشیا میں شریعی قوانین کے تحت مسلمانوں کی غیر مسلم سے شادی پر پابندی عائد ہے۔ ایسا تب ہی ممکن ہے جب غیر مسلم پارٹنر اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر لے۔ ایسے جوڑے کو سول لاء کے تحت شادی کے اندراج کی اجازت نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملائیشیا میں دوہرا قانونی نظام رائج ہے اور کسی مسلمان کو اپنی شادی کسی سول لاء کے تحت کروانے کا حق حاصل نہیں ہے۔

ویتنام

ویتنامی حکومت نے 2012 ء میں پہلی بار ہم جنس افراد کی شادی کے قانونی حق تسلیم کرنے کا عندیہ دے کر دنیا کو حیران کر دیا تھا۔

2015 ء میں اس ملک میں ہم جنسوں کی شادی پر لگی قانونی پابندی ختم کر دی گئی تاہم ویتنام میں ہم جنس پرست جوڑے کو ایک فیملی کی حیثیت سے بچہ گود لینے کی اجازت نہیں لیکن ہر پارٹنر انفرادی طور پر بچہ گود لے سکتا ہے۔

اس ملک میں ہم جنس پرست جوڑوں کے ساتھ ایک اور امتیازی سلوک یہ ہوتا ہے کہ طلاق کی صورت میں دونوں پارٹنرز میں سے کسی ایک کی بھی جائیداد یا اثاثوں کو قانونی تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔

China Rudong Demografie Bevölkerung Senioren Ein-Kind-Politik
چین میں ون چائلڈ پالیسی کے سبب ملک میں شدید نوعیت کے آبادیاتی مسائل پائے جاتے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele

چین

چین میں غیر روایتی فیملی یا خاندان کو سماجی بدنامی اور قانونی رکاوٹوں دونوں کا سامنا ہوتا ہے۔ چین میں اب بھی کنفیوشس اقدار کا غلبہ ہے۔ اس اشتراکی ملک میں ہم جنس پرست خواتین اور مردوں دونوں پر سماجی دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ یہ خواتین اور مرد معمول کے مطابق مخالف جنس کے ساتھ ہی شادی کرتے ہیں۔

چین میں سماجی بدنامی اور امیتازی سلوک سے بچنے کی خاطر ایسے ہم جنس پرست مردوں اور خواتین کی آپس میں شادی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ یہاں سنگل پیرنٹ فیملی یا بچے کے واحد سرپرست پر مشتمل خاندانوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔

چین میں گرچہ طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم بہت سے جوڑے انتہائی کشیدہ اور ناخوشگوار ازدواجی ماحول اور تعلق کے باوجود اپنے بچے کی پرورش کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ ہی رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

چین میں بغیر شادی کے بندھن کے بچے کی پیدائش پر جرمانہ ہو جاتا ہے۔ ایسے جوڑوں کو کئی سال تک ورکننگ کلاس انکم پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی سنگل ماں کو جو اپنے بچے کے باپ کو اس بات پر قائل نہیں کر سکتی کہ وہ اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کرائے، بچے کے شناختی دستاویز بھی نہیں مل سکتے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں