1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حلب پر حملے جاری، روس پر ’جنگی جرائم‘ کا الزام

26 ستمبر 2016

شامی شہر حلب میں ادویات اور اشیائے خورد و نوش کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے جبکہ جنگی طیاروں نے ایک مرتبہ پر اس شہر پر شدید بمباری کی ہے۔ قبل ازیں اقوام متحدہ میں مغربی طاقتوں نے روس پر ’جنگی جرائم‘ کا الزام عائد کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/2Qb5g
Syrien Aleppo Trümmer nach einem Luftangriff
تصویر: Reuters/A.Ismail

پیر کے روز جنگی طیاروں نے شامی شہر حلب کے ان حصوں کو شدید بمباری کا نشانہ بنایا ہے، جو باغیوں کے زیر قبضہ ہیں۔ اس بمباری سے چند گھنٹے پہلے ہی نیویار ک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ماسکو اور دمشق حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اقوام متحدہ میں ایک ہنگامی اجلاس کے دوران امریکی سفیر سمنتھا پاور کا روس پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ شام میں ’’بربریت‘‘ سے کام لے رہا ہے۔ دوسری جانب برطانیہ اور فرانس کے سفیروں نے اس سے بھی سخت تنقید کی ہے۔ فرانس کے سفیر فرینکوئس ڈی لیڑے کا کہنا تھا، ’’حلب میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔‘‘

اسی طرح برطانوی سفیر کا کہنا تھا کہ رہائشی علاقوں میں جدید ترین ہتھیاروں سے بمباری کرتے ہوئے ایک ’نئی جہنم‘ بنا دی گئی ہے۔ میتھیو رے کرافٹ کا کہنا تھا، ’’اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ روس اس شامی حکومت کا ساتھی ہے، جو جنگی جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے۔‘‘

Syrien Bürgerkrieg Aleppo
تصویر: GettyImages/AFP/A. Alhalbi

ماسکو نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان ممالک کو جوابی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’برطانیہ اور امریکا کے نمائندوں کی بیان بازی ناقابل قبول ہے اور اس سے ہمارے تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘

حلب میں آج پیر کے روز کم از کم بارہ حملے کیے گئے ہیں۔

سیرئین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اس بمباری کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی جبکہ دو شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ حلب میں گزشتہ جمعرات سے شامی اور روسی بمباری کے نتیجے میں کم از کم 128 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر تعداد عام شہریوں کی تھی۔ سیرئین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں بیس بچے اور نو خواتین بھی شامل ہیں۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس علاقے میں اشیائے خورد و نوش کی اس قدر قلت پیدا ہو چکی ہے کہ روٹی کے ایک حصہ پانچ سو شامی پاؤنڈز میں مل رہا ہے۔