1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حامد کرزئی کی تقریب حلف برداری، ہلیری کلنٹن بھی شریک

19 نومبر 2009

افغان صدر حامد کرزئی نے دوسری مدت صدارت کے لئے حلف اٹھا لیا ہے۔ تقریب حلف برادری میں امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن بھی شریک ہوئی۔ کرزئی پر شدید امریکی دباؤ ہے کہ وہ ملک سے بد عنوانی کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔

https://p.dw.com/p/Kahu
تصویر: AP

حلف برداری کے موقع پر کابل شہر میں سخت حفاطتی اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور صدارتی محل کو ایک محفوظ قلعے میں تبدیل کر دیا گیا ہے تاکہ کسی بھی قسم کا کوئی ناخوشگوارواقعہ پیش نہ آئے۔ طالبان عسکریت پسندوں کی جانب سے ممکنہ حملے کے خطرے کے پیش نظر غیر ملکی سفارت خانوں اوراقوام متحدہ کے عملے کو گھروں میں رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ کابل میں پولیس اور نیم فوجی دستے گشت کر رہے ہیں اور شہر کے گرد خار دار تاریں بچھا دی گئی ہیں۔

دریں اثناء امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کابل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مخصوص وقت افغانستان کے لئے ایک کڑا امتحان ہے۔ کلنٹن نے کہا کہ حامد کرزئی کا دوسری مدت کے لئے منتخب ہونا ان کو ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ افغان عوام کا معیار زندگی بلند کرنےمیں کامیاب ہوں۔ ہلیری کلنٹن نے بدھ کی رات صدر کرزئی کے ساتھ ملاقات کی اور ملک سے بد عنوانی کے خاتمے اورعوامی بہبود کے منصوبہ جات ترتیب دینے اوران پر موثر عمل کرنے پر زور دیا۔

Hillary Clinton in Ägypten
کرزئی کی تقریب حلف برداری میں کلنٹن کی شرکت، امریکی انتظامیہ کی کرزئی کی حمایت کی نشاندہی کرتی ہےتصویر: AP

تقریب حلف برادری میں شرکت کرنے والے اعلیٰ غیر ملکی سفارت کار امید کر رہے ہیں کہ حلف برادری کی تقریب کے دوران کی جانے والی اپنی تقریر میں حامد کرزئی کرپشن کے خاتمے کے لئے کوئی اہم منصوبہ تجویز کریں گے۔

دوسری طرف کئی امریکی سینیٹرزنے صدر حامد کززئی کے دوبارہ صدر منتخب ہونے پر اپنے تحفظات بھی ظاہر کئے ہیں۔ حامد کرزئی کے قابل اعتبار امریکی اتحادی ہونے پر کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں جبکہ ان کے بارے میں یہ شک بھی کیا جا رہا ہے کہ آیا وہ افغانستان کی موجودہ ابتر صورتحال میں بہتری اور طالبان باغیوں کو روکنے کے لئے کوئی موثر اقدامات اٹھا سکیں گے بھی یا نہیںِ۔

حامد کرزئی اگست میں منعقد کئے گئے صدارتی انتخابات میں کامیاب قرار دئے گئے تھے تاہم بعد ازاں ثابت ہوا تھا کہ انتخابات کے دوران وسیع پیمانے پر دھاندلی کی گئی ہے، جس کے بعد دوسرے مرحلے کا اعلان کیا گیا۔ ان کے حریف اور سابق افغان وزیر خارجہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، دوسرے مرحلے میں ممکنہ دھاندلیوں کے پیش نظر انتخابی عمل سےاحتجاجًا دستبردار ہوئے تو حامد کرزئی کو ملک کا صدر منتخب کر لیا گیا۔

اس صورتحال میں امریکی صدر باراک اوباما افغانستان میں طالبان باغیوں کی شدت پسندانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے وہاں مزید چالیس ہزار فوجی تعینات کرنے پر بدستور غور کر رہے ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے اوباما پر شدید دباؤ ہے تاہم انہوں نے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں فیصلہ جلد ہی کر لیں گے۔ اپنے حالیہ دورہ چین کے دوران صدر اوباما نے حامد کرزئی کے بارے میں کہا کہ کرزئی میں کچھ کمزوریوں کے ساتھ قابلیتیں بھی ہیں۔ حامد کرزئی کی تقریب حلف برادری میں شرکت کے لئے امریکی وزیر خارجہ کا خصوصی دورہ افغانستان، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حامد کرزئی کو امریکہ کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔

Abdullah Abdullah
ڈاکٹر عبداللہ کی طرف سےصدارتی انتخاب کےدوسرے مرحلےکے بائیکاٹ کے بعد کرزئی کو بلا مقابلہ صدر منتخب گیاتصویر: DW

ادھرجرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بدھ کے دن برلن میں افغانستان متعین جرمن فوجیوں کے مشن میں ایک سال کی توسیع کا اعلان کر دیا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ ویسٹر ویلے نے کہا کہ جرمنی کے اس قدم سے ثابت ہوتا ہے کہ برلن حکومت افغانستان میں قیام امن کے لئے پر عزم ہے۔ پاکستانی صدر آصف علی زرداری بھی حامد کرزئی کی تقریب حلف برادری میں شرکت کے لئے کابل پہنچ چکے ہیں۔

افغانستان میں طالبان باغیوں کی سرکوبی کے لئے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اور امریکہ کے تقریبا ایک لاکھ فوجی تعینات ہیں۔

رپورٹ : عاطف بلوچ

ادارت : شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید