1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جی بیس کے وزرائے خزانہ کا اجلاس

15 مارچ 2009

عالمی مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لئے ترقی یافتہ اور اہم ترقی پذیر ملکوں کے اجلاس میں پالیسیوں پر اختلافات کے باوجود پیش رفت کے امکانات موجود ہیں۔

https://p.dw.com/p/HBqy
انگلینڈ کے شہر ہور شام میں گرو پ ٹونٹی کے وزرائے خزانہ اور مالیاتی اداروں کے سربراہوں کا گروپ فوٹوتصویر: AP

عالمی مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لئے گروپ ٹونٹی کے ملکوں کا سربراہ اجلاس اگلے ماہ کی دو تاریخ کو شییڈیول ہے۔ اُس اجلاس کے ایجنڈے کے سلسلے میں مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ امکاناً اِسی تناظر میں جرمن چانسلر اینگلا میرکل برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن کی دعوت پر لندن پہنچی ہوئیں ہیں۔

Merkel Treffen mit Brown in London
جرمن چانسلر انگلیلا میرکل، اپنے برطانوی ہم منصب کی رہائش گاہ پرتصویر: AP

اِس اہم میٹنگ کے علاوہ گروپ ٹونٹی کے ملکوں کے وزرائے خزانہ بھی لندن کے نواح میں اہم میٹنگ میں شریک ہیں۔ اِس کانفرنس کے حوالے سے برطانوی وزیر خزانہ الیسٹئر ڈارلنگ کا کہنا ہے کہ بہت سارے معاملات کی نشاندہی ہوئی ہے، جیسا کہ جرمنی کی مثال موجود ہے، جہاں ایکسپورٹ میں کمی واقع ہونے کے ساتھ ساتھ جی ڈی پی میں بھی تنزلی پیدا ہوئی ہے، اِسی طرح فرانس ہے، جنوبی امریکی ملک ہیں، جاپان، کوریا اور چین ہیں، غرضیکہ ہر ملک اپنی اپنی اقتصادیات کی سپورٹ میں ہے۔

Treffen der G20 Finanzminister in Großbritannien
امریکی اور برطانوی وزرائے خزانہ، ہور شام کانفرس میں شرکت کے لئے جاتے ہوئے۔تصویر: AP

وزرائے خزانہ کے اجلاس میں اختلاف رائے دیکھنے میں آ یا ہے جس کے حوالے سے برطانوی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ اگر ایک کمرے میں بیس افراد ہوں تو اختلاف کا پیدا ہونا یقینی بات ہے۔ امریکی تجویز کی جرمنی اور فرانس کی جانب سے مخالفت سامنے آئی ہے۔ امریکی تجویز کے مطابق عالمی بحران کے دوران ممالک اپنی اقتصادیات کو مزید تحریک دینے کے لئے اپنے سرمائے کو متحرک کریں اور ٹیکس کی مد میں چھوٹ دینے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف جرمنی اور فرانس کا خیال ہے کہ مالی منڈیوں پر حکومتی قوانین کا اطلاق ضروری ہے اور ٹیکس چھپانے والے ملکوں کے خلاف تادیبی کارروائی وقت کی ضرورت ہے۔ امریکی تجویز کو برطانوی حمایت بھی حاصل ہے۔

Logo IMF Internationaler Währungsfond
عالمی مالیاتی ادارے کے فعال کردار کو بھی گروپ ٹونٹی کی کانفرنس میں موضوعِ بحث بنایا گیا۔

وزرائے خزانہ کے اجلاس میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے فنڈ کو بڑھایا جائے تا کہ وہ ایسی ہنگامی صورت حال میں فعال کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ امریکی وزیر خزانہ ٹم گائٹنر کے خیال میں یہ فنڈ سات سو پچاس ارب ڈالر کے قریب ہونا چاہیے۔ ابھرتی اقتصادیات کے حامل، چین، برازیل، روس اور بھارت کا کہنا ہے کہ وہ فنڈ کے لئے مزید رقم اُسی صورت میں مہییا کریں گے جب اُن کو مالیاتی ادارے میں اضافی ووٹنگ پاور دی جائیں گی۔ اِس تجویز پر اتفاق کے امکانات سامنے آئے ہیں۔

امریکی تجویز کے حوالے سے جرمن چانسلر اینگلا میرکل کا کہنا ہے کہ حکومتی سرمائے کا خرچ کیا جانا کوئی ایشو نہیں ہے، اصل مسئلہ تو ایک نظام کو تحریک دینا ہے تا کہ مستقبل میں دوبارہ کسی ایسے بحران کا اندیشہ نہ ہو۔

ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ اقتصادی بحران کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ ایک ملک اِس کو حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اِس صورت حال کو بہتر کرنے کے لئے اقوام کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔

گروپ ٹونٹی کے شریک ملک دنیا کی تقریباً پچاسی فی صد اقتصادیات کے حامل ہیں۔ امریکہ، جاپان اور جرمنی سمیت یورپی ملک کے علاوہ چین، برازیل وغیرہ بھی شامل ہیں۔

وزرائے خزانہ کا اجلاس لندن کے جنوب میں جنوبی مغربی سمت میں پچاس کلومیٹر کی دوری پر واقع مارکیٹ شہرہورشام میں شیڈیول ہے۔ یہاں کی دو مرکزی سڑکیں کاروبار اور خرید و فروخت کے لئے مشہور ہیں۔