1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جی بیس اجلاس کا آج باقاعدہ آغاز

2 اپریل 2009

برطانیہ کے دارلحکومت لندن میں دنیا کی بیس بڑی معیشتوں کے سربراہان اکھٹے ہوچکے ہیں۔ عالمی معیشت کو بحران درپیش ہے۔ امیدوں اور توقعات کے بیچ لندن میں جی بیس مخالف مظاہرے بڑے پیمانے پر ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/HOYX
تصویر: AP / CC_Marcin n_nc

لندن میں آج جب دنیا کی بیس اہم معیشتوں کے سربراہ اکھٹے ہو کر سرمایہ داری نظام کو بحران سے باہر نکالنے کے لیے گفت و شنید کریں گے وہاں ان رہنماؤں کو اندرونی اختلافات کے علاوہ اس بات کا بھی خیال رکھنا پڑے گا کہ لندن میں جی بیس اجلاس کے مخالفین نے بھرپور مظاہرے کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ ایک متبادل معاشی نظام کے لیے آوازیں زوروشور سے اٹھنے لگی ہیں۔ لہٰذا اندرونی اختلافات کے باوجود عالمی رہنماؤں کو متحد رہنے کی اشد ضرورت ہے۔

Demonstrationen in London G20
عالمگیریت اور سرمایہ داری مخلف ہزاروں مظاہرین نے لندن میں جی بیس اجلاس کے خلاف مظاہرہ کیاتصویر: picture-alliance/ dpa

غالباً اسی بات کے پیشِ نظر برطانوی وزیرِ اعظم گورڈن براؤن نے یہ کہنا ضروری سمجھا: ہمیں اس عزم میں اکھٹا رہنے کی ضرورت ہے کہ جو کرنا ضروری ہے وہ کیا جانا چاہیے۔ یہ ایک بے نظیر اقتصادی بحران ہے۔ لوگ اپنے گھروں سے محروم ہو چکے ہیں، اپنی نوکریوں سے، اور بعض اوقات امید سے بھی۔ صدر اوباما اور میں اس بات پو متفق ہیں کہ عالمی مسائل سے نمٹنے کے لیے عالمی اقدامات کرنا ہوں گے۔

G20 Bundeskanzlerin Angela Merkel bei der Ankunft im Buckingham Palace
جرمن چانسلر انگیلا میرکل عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کر رہی ہیںتصویر: AP


مگر یہ شاید اتنا آسان ثابت نہ ہو۔ آج جی بیس اجلاس میں جہاں بھارت، چین اور برازیل جیسے ملک اپنے مفادات کو فوقیت دیں گے وہاں خود یورپ میں بھی مالیاتی بحران کے تدارک کے حوالے سے پالیسیوں پر اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ فرانس اور جرمنی عالمی مالیاتی نظام میں سخت تحفظاتی اور اصلاحاتی پالیسی کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ امریکہ اور برطانیہ عالمی معیشت کو بہت زیادہ کنٹرول کرنے کے حق میں نہیں دکھائی دیتے۔ امریکہ اور برطانیہ زیادہ حکومتی امداد سے اپنی معیشتوں پیروں پر کھڑا کرنے کی وکالت کررہے ہیں۔

G20 Demonstrationen Berlin
اٹھائیس مارچ کو برلن میں جی بیس مخالف مظاہرین تابوت اٹھائے ہوئے مارچ کررہے ہیں جس سے ان کی مراد ’سرمایہ داری نظام کی موت‘ ہےتصویر: AP


اس ماحول میں امریکہ اور برطانیہ ایک طرف جب کہ جرمنی اور فرانس ایک طرف کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکی صدر اوباما کو اسی وجہ سے بدھ کے روز کہنا پڑا کہ: میں جانتا ہوں کہ جی بیس ممالک اپنے نظریے سے آگے بڑھ رہے ہیں اور جیسا کہ گورڈن براؤن نے کہا کہ شاید ہم ہر نکتے پر متفق نہ ہوسکیں۔ میں یہاں اپنے خیالات پیش کرنے آیا ہوں اور اس لیے کہ دوسروں کو سن سکوں نہ کہ یہ کہ ان کو لیکچر دوں۔ یہ کہنے کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں قیادت کے اس موقع کو گنوانا نہیں چاہیے۔

دوسری جانب بدھ کے روز پانچ ہزار کے قریب سرمایہ داری مخالف مظاہرین نے لندن کے فائنینشل سینٹر کے قریب مظاہرہ کیا۔ پولیس نے چھبیس مظاہرین کو حراست میں بھی لے لیا۔ بعض مظاہرین بین آف انگلینڈ کی چھت تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جب کہ بعض نے ’آر بی ایس‘ اور ’ایچ ایس بی سی‘ کے دفاتر کی کھڑکیاں بھی توڑ دیں۔ اس صورتِ حال میں آج جی بیس کا اجلاس عالمی رہنماؤں کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔