جہاں رکاوٹ ۔ وہیں دھرنا
13 مارچ 2009وکلاء اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے ریلیاں نکالیں اور نعرے لگائے۔ اس موقعے پر لگائے جانے والے وکلاء کے نعرے صد ر آصف زرداری کے خلاف ہتک آمیز الفاظ لئے ہوئے تھے۔
لاہور میں وکلاءکی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معروف قانون دان چوہدری اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کئے بغیر مسائل حل نہیں ہو سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کتنے لانگ مارچ روکے گی۔ ’’وکلاء پندرہ دن بعد پھر نئے لانگ مارچ کی تاریخ دے دیں گے‘‘۔ اعتزاز احسن کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر مشرف کی طرف سے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف دائر کیا جانے والا ریفرنس سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا تھا۔ ان کے مطابق رکاوٹوں کے باوجود وکلا ء اسلام آباد ضرور پہنچیں گے۔ انہوں نے نوجوان وکلا ء کو تلقین کی کہ گرفتاریوں کے باوجود اپنے حوصلے بلند رکھیں اور اسلام آباد پہنچنے کی پوری کوشش کریں۔ اگر ان کے لئے تمام راستے بند کر دئیے جائیں تو اعتزاز احسن کے بقول وکلا ء کو جہاں روکا جائے وہ وہی دھرنا دیں۔’’ گوجرانوالہ کے وکیل گوجرانوالہ کی سڑک بلاک کر دیں۔ ساہیوال کے وکلا ء ساہیوال کی سڑک پر دھرنا دیں اور اس سب کے باوجود 16 مارچ کو شاہرہ دستور پر پہنچنے کی اپنی کوشش بھی جاری رکھیں‘‘۔
جمعرات کو ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں وکلاء اور سیاسی کارکنوں کی تعداد ماضی کی نسبت کافی زیادہ تھی۔ موجودہ لانگ مارچ میں ماضی کے بر عکس سیاسی رہنما ؤں کی وکلاء کے ساتھ وابستگی بڑی نمایاں نظر آ رہی ہے۔
ملتان میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لےگ (ن) کے رہنما جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ وکلاء کا لانگ مارچ ہے وہ صحیح بات نہیں کر رہے ہیں ان کے مطابق وکلا ء اس لانگ مارچ کی قیادت کر رہے ہیں اور اس لانگ مارچ کا ہر اول دستہ ہیں۔ ان کے مطابق ’’اب یہ قومی لانگ مارچ ہے جس کا مقصد ملک کے آئین کی بحالی اور ظلم کا خاتمہ بھی ہے‘‘۔
جاوید ہاشمی نے کہا کہ پاکستان کی جمہوریت پسند سیاسی قوتیں وکلاء کے ساتھ ہیں اور جدوجہد کے اس میدان میں وہ وکلا ء کو اکیلا نہیں چھوڑیں گی۔
معزول چیف جسٹس کی بحالی کے لئے ایک روز بعد پنجاب پہنچنے والے لانگ مارچ کو روکنے کے لئے صوبے کے مختلف شہروں میں پولیس کے چھاپوں اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اگرچہ صوبائی محکمہ داخلہ نے 600 سے زائد سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے لیکن مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی پاکستان سمیت سیاسی جماعتیں یہ تعداد ہزاروں میں بتا رہی ہیں۔
ادھر لاہور پریس کلب میں چند غیر معروف وکلاء نے وکلاء رہنمائوں پر لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے لانگ مارچ میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔