1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جھگڑے، تشدد اور قوانین کی خلاف ورزیوں پر مہاجرین کو انتباہ

شمشیر حیدر2 اکتوبر 2015

جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے کہا، ’’کل تک یہ لوگ جرمنی میں پناہ ملنے پر شکرگزار تھے، اب ان کا خیال ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی بھی کیمپ میں جا کر رہ سکتے ہیں۔‘‘

https://p.dw.com/p/1Ghx4
Flüchtlingslager Hamburg Max Bahr Hamburg Bergedorf
تصویر: DW/M. Hallam

وزیرداخلہ کا اشارہ مہاجرین کی اس اقلیت کی طرف تھا، جو یا تو جھگڑوں میں ملوث ہوتے ہیں، یا پناہ گزینوں کے لیے مختص کیمپ میں نہیں رہنا چاہتے یا جو کیمپ میں فراہم کیا گیا کھانا دھتکار دیتے ہیں۔ جمعرات کی شب پبلک لا کے تحت چلے والے نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف سے کی گئی اپنی گفتگو میں ڈے میزئیر نے کہا، ’’یہ لوگ کیمپ سے نکلتے ہیں، ٹیکسی کرائے پر لیتے ہیں اور توقع کے برعکس ان کے پاس ملک بھر میں سینکڑوں میل کا سفر کرنے کے لیے رقم بھی موجود ہوتی ہے۔ یا پھر وہ رہائش پسند نہ آنے پر ہڑتال کر دیتے ہیں۔ کبھی انہیں کھانا پسند نہ آنے کی شکایت ہے تو کبھی یہ کیمپ میں جھگڑا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘

قواعد کے مطابق جرمنی میں آنے والے مہاجرین اپنی مرضی سے رہائش کا انتخاب نہیں کر سکتے، بلکہ مہاجرين سے متعلق وفاقی جرمن ادارہ انہیں مختلف صوبوں اور شہروں میں موجود پناہ گزینوں کے کیمپوں میں منتقل کرتا ہے۔ ان کیمپوں میں مختلف قومیتوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے مہاجرین رہتے ہیں۔ بعض اوقات مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کے درمیان جھگڑے اور تصادم کی صورت حال بھی پیدا ہو جاتی ہے۔

Österreich - Polizeikontrollen an ungarischen Grenze
مہاجرین کے حوالے سے جرمن عوام کا رویہ کچھ سرد پڑتا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/APA/H. Oczeret

تازہ ترین تصادم کا واقعہ جمعرات کو ہیمبرگ میں پیش آیا، جہاں افغان اور شامی مہاجرین آپس میں لڑ پڑے۔ اس واقعے میں چار افراد زخمی ہو گئے۔ کاسل میں رونما ہونے والے تصادم کے ایسے ہی ایک اور واقعے میں چودہ افراد زخمی ہو گئے تھے۔ یہاں 70 پاکستانی مہاجرین اور 300 البانی پناہ گزینوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا تھا۔ ادھر جرمن پولیس نے جمعرات کے روز مشرقی صوبے تھورنگیا میں ہونے والے جھگڑے کے شبے میں 15 پناہ گزینوں کو گرفتار کر لیا۔ اس جھگڑے میں گیارہ افراد زخمی ہو گئے تھے۔

گزشتہ مہینوں میں جرمن عوام نے اپنے شہروں میں آنے والے مہاجرین کو بڑی گرم جوشی سے خوش آمدید کہا تھا۔ تاہم تصادم کے ایسے واقعات کے بعد سے ان کا جوش و خروش بھی سرد پڑتا جا رہا ہے۔ حالیہ جائزوں کے مطابق مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد کے باعث جرمن شہریوں کی ’بے چینی‘ اور ’خوف‘ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں مہاجرین سے متعلق نرم رویہ رکھنے والے سیاستدانوں کی مقبولیت میں کمی جب کہ مہاجرین مخالف قدامت پسند سوچ رکھنے والے سیاست دانوں کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جرمن پولیس یونین کے سربراہ رائنر ونڈٹ نے بھی پناہ گزین کیمپوں میں مہاجرین کے درمیان پرتشدد تصادم کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ جرمنی کے کثیر الاشاعتی روزنامے بلڈ سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ’’ہمیں خدشہ ہے کہ صورت حال ہاتھ سے نکل جائے گی۔ ہمارا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ بدقسمتی سے تقریباﹰ ہر روز ہی مختلف نسلی اور مذہبی گروپوں کے افراد کے مابین تصادم کے پرتشدد واقعات پیش آتے ہیں، جن میں منظم انداز سے اور ہدف بنا کر حملے کیے جاتے ہیں۔‘‘

برلن حکام کے مطابق صرف گزشتہ ماہ دولاکھ 10 ہزار اور دو لاکھ 20 ہزار کے درمیان مہاجرین نے پناہ کی درخواست دی۔ جرمنی نے اب تک مہاجرین کی آمد کو روکا تو نہیں تاہم اب حکومت مہاجرین کی رجسٹریشن ملکی سرحد پر ہی کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ منصوبے کے تحت جرمنی اور آسٹریا کے مابین سرحد پر ’’ٹرانزٹ زون‘‘ بنایا جا سکتا ہے، جہاں زیادہ تر ’’محفوظ ممالک‘‘ کی فہرست میں شامل ملکوں سے آنے والے مہاجرین کو رکھا جائے گا۔