1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا کے حالات و واقعات اور جرمن اخبارات

16 اکتوبر 2011

گزشتہ ہفتے جرمن اخبارات میں جنوبی ایشیا سے متعلق شائع ہونے والی خبروں اور جائزوں میں فرینکفرٹ کتاب میلے میں بھارتی ناشروں کی شرکت، گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کا دور حکومت اور امریکی ڈرونز جیسے موضوعات کا چرچا رہا۔

https://p.dw.com/p/12snn
تصویر: AP

بارہ اکتوبر سے جرمنی میں دنیا کے سب سے بڑے کتاب میلے فرینکفرٹ بک فیئرکا افتتاح ہو گیا ہے۔ اپنی نوعیت کے اس 63 ویں میلے میں بھارت سے تعلق رکھنے والے ناشروں کی ایک بڑی تعداد حصہ لے رہی ہے۔کتابوں کے حوالے سے بھارت کو ایک بہت بڑی منڈی تصور کیا جاتا ہے۔ بھارت دنیا میں انگریزی زبان کی کتابیں شائع کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ یہاں صرف جرمن کتابوں کا انگریزی میں ہی ترجمہ نہیں کیا جاتا بلکہ علاقائی زبانوں میں بھی انہیں شائع کیا جاتا ہے۔2009ء میں جرمن ناشروں نے 98 لائسنس بھارت کو فروخت کیے تھے۔ 2006ء میں بھارت ہی اس میلے کا ساتھی یا پارٹنر ملک تھا۔ اخبار فرانکفٹر الگمائنے سائٹنگ تحریر کرتا ہے کہ کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے بھارت دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت میں 19ہزار پبلشر ہیں، جو سال میں 90 ہزار سے زیادہ کتابیں شائع کرتے ہیں۔ تاہم اصل تعداد کا علم کسی کو بھی نہیں ہے۔1991ء میں بھارت میں اقتصادی ترقی کا عمل شروع ہوا، جس کے بعد متعدد غیر ملکی اداروں نے اس ملک کا رخ کیا۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ یہاں شائع ہونے والی نصف سے زیادہ کتابیں کورس سے متعلق ہوتی ہیں کیونکہ بھارتی نوجوان تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے حصول پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ اخبار کے مطابق اس شعبے سے منسلک افراد کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بھارت میں کتابوں کی مانگ میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو گا۔

بھارتی ریاست گجرات کے وزیراعلٰی نریندر مودی کو ملک کا کامیاب ترین وزیراعلٰی کہا جاتا ہے۔ 2001ء سے ریاست گجرات کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہے اور یہ علاقہ مسلسل ترقی کر رہا ہے۔ اب ساٹھ سالہ متنازعہ وزیراعلٰی کی خواہش ہے کہ وہ وزارت عظمٰی کی کرسی پر بیٹھیں۔ لیکن 2002ء میں ریاست میں ہونے والا مسلمانوں کا منظم قتل عام ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ نیو زیورشر سائٹنگ نے ’’بلند سیاسی عزائم اور خون سے رنگے ہاتھ‘‘ کے عنوان سے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ حیرانی کی بات نہیں ہے کہ نریندر مودی سیاسی میدان میں اپنی کامیابی اور اپنے بلند عزائم کی وجہ سے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ ایک جانب گجرات میں بہت سے افراد ان سے والہانہ محبت کرتے ہیں تو ان کے حلقے کے باہر ان سے شدید نفرت بھی کی جاتی ہے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ مودی 2002ء میں اس وقت ریاست کے وزیراعلٰی تھے، جب دو ہزار سے زائد مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا اور دس ہزار سے زائد کو اپنے گھر بار اور کاروبار چھوڑنے پڑے تھے۔

امریکہ اپنے خطرناک دشمنوں کو نشانہ بنانےکے لیے ڈرون طیاروں سے حملے کرتا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں ڈرون حملوں میں پانچ گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ 2001ء سے اب تک ان حملوں میں دو ہزار سے زائد عسکریت پسند ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہفت روزہ ڈی سائٹ امریکہ کے طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ پاکستان اس صورتحال کو اپنے مفاد میں بھی استعمال کر رہا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ڈرون طیارے صرف انہی علاقوں میں آگ برساتے ہیں، جہاں مقامی حکومت القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ اسلام آباد حکام تو ان حملوں پر خوش ہیں۔ ایک تو یہ حملے سلامتی کی صورتحال قائم رکھنے کے حوالے سے ان کی ذمہ داریوں کو پورا کر رہے ہیں۔ دوسری جانب سے ڈرون حملے عوام میں امریکہ مخالف جذبات کو بھڑکانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور اس سے بھی حکومت کو ہی فائدہ ہو رہا ہے۔ اس کی ایک مثال پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی ہیں۔ پاکستان میں تو وہ ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہیں جبکہ واشنگٹن جا کر انہیں جاری رکھنے کی درخواست کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت وکی لیکس کی جانب منظر عام پر آنے والی خفیہ دستاویزات ہیں۔

سری لنکا میں تیس سال جاری رہنے والی خانہ جنگی کو ختم ہوئے تقریباً دو سال گزر چکے ہیں۔ اس خانہ جنگی نے ایک لاکھ سے زائد افراد کی جان لی۔ نیو زیورشر سائٹنگ تحریرکرتا ہے کہ دو سال گزرنے کے بعد بھی شمالی سری لنکا میں زندگی معمول پر نہیں آ سکی ہے۔ بہت سے افراد اپنے علاقوں میں واپس توآچکے ہیں لیکن گھر ابھی بھی تباہ ہیں۔ روزگار کے مواقع موجود نہیں ہیں اور بڑے پیمانے پر فوجیوں کی موجودگی معمولات زندگی میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ تعمیر نو کی بات کی جائے تو خانہ جنگی کے دوران تباہ ہونے والے علاقوں میں کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آئے گی۔ کیلینوچی کو تامل باغیوں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ جنگ کے دوران اس شہر کے تقریباً تمام گھر یا تو تباہ ہوگئے ہیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔ تعمیر نو کے کاموں کے نگران ادارے کے ایک اہلکار کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اس پورے ضلع میں 27 ہزار مکانات کو دوبارہ تعمیر کرنا ہے اور تقریباً 9 ہزار کی مرمت کی جانی ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران 5 ہزار گھروں کو تعمیر کیا جا چکا ہے اور بہت سوں کی صرف مرمت کی گئی ہے۔ مقامی انتظامیہ کو وفاقی حکومت مالی تعاون فراہم کرتی ہے۔ اخبار کے مطابق یہ امداد ان تک بہت ہی مشکل سے پہنچ پا رہی ہے اور تعمیر نوکے کاموں میں مقامی اداروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

تحریر: ایشا بھاٹیا

ترجمہ: عدنان اسحاق

ادارت : حماد کیانی