1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ايشيا کے حالات پر جرمن زبان کے پريس کی آراء

31 مئی 2010

جرمن اخبارات میں گزشتہ ہفتے بھارتی فضائی حادثے، بھارت میں ایڈز کی بیماری کو بڑھنے سے روکنے کی کوششیں اور سابق پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کی سیاست میں واپسی کا چرچہ رہا۔

https://p.dw.com/p/NdMF
تصویر: Swantje Zorn

بھارت میں فضائی حادثہ

پچھلے 14برسوں کے سنگين ترين فضائی حادثےکے بعد بھارت ميں حادثے کی وجہ کا معمہ حل کرنے کی کوششيں جاری ہيں۔ اخبار TAGESSPIEGEL تحرير کرتا ہے کہ بھارت کے فضائی نقل وحمل کے وزير پٹيل کے بيانات سے بالواسطہ طور پر يہ تاثر ملتا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والے غير ملکی پائلٹ نے لينڈنگ کا لمحہ گزر جانے کے بعد طيارے کو دوبارہ فضا ميں اٹھانے کی کوشش کی ليکن ممکن ہے کہ اس کے دوران جہاز قابو سے باہر ہوگيا۔

اخبار مزيد لکھتا ہے کہ بھارتی ہوابازوں کی ايسوسی ايشن نے تنقيد کی ہے کہ حکام مسئلے کو اپنے لئے آسان بنانے کی کوشش ميں سارا الزام مردہ پائلٹ پر ڈالنے کی کوشش کررہے ہيں۔ بھارت ميں حفاظتی معيارات ناقص ہيں اور اس ابھرتی ہوئی صنعتی طاقت والے ملک ميں فضائی سفر ميں کئی برسوں سے نماياں اضافہ ہورہا ہے۔ فضائی کمپنيوں کے درميان قيمتيں کم رکھنے کے لئے سخت مقابلہ ہے۔ سرکاری فضائی کمپنی ائير انڈيا کی سستے ٹکٹ بيچنے والی شاخ ائير انڈيا ايکسپريس پربھی قيمتيں کم رکھنے کے لئے زبردست دباؤ ہے۔ تاہم اس کا سيکيورٹی ریکارڈ ابھی تک اچھا ہے۔

Flugzeugabsturz in Indien Flash-Galerie
تصویر: AP


بھارت میں ایڈز کے مہلک مرض کو پھیلنے سے روکنے کی کوششیں

بھارتی حکومت نے پيشگی احتياط اور مفت علاج کے پروگرام کی مدد سے ايڈز کے مہلک مرض کو مزيد پھيلنے سے روکنے ميں کاميابی حاصل کرلی ہے۔ تاہم ايڈز کا ذکر بھارتی معاشرے ميں اب بھی معيوب سمجھا جاتا ہے اور اس وجہ سے اس مرض ميں مبتلا افراد کی مدد اوران کا علاج ايک مشکل کام ہے۔

اخبار NEUE ZـRCHER ZEITUNG لکھتا ہے: ''بھارت کو جلد ہی ايک نئے مسئلے کا سامنا ہوگا۔ ايڈز کے جن مريضوں نے اينٹی وائرس ادويات سے علاج کا آغاز کيا ہے،اُنہيں يہ دوائيں عمر بھر جاری رکھنا ہوں گی۔ اوسطاً چھ سات سال کے بعد مريضوں ميں ان دواؤں کے خلاف مزاحمت پيدا ہوجائے گی اور انہيں ادويات کی ايک نئی قسم کی ضرورت پڑے گی۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ بھارت ميں ہزاروں مريضوں کوجلد ہی ايک نئے طريقہء علاج کی ضرورت ہوگی جو شروع ميں ملک ميں صرف چند جگہوں ہی پر دستياب ہوگا۔

Indien AIDS Blutuntersuchung in Kalkutta
کئی بھارتی دواسازکمپنياں معياری ادويات کے سستے جينرک متبادل تيار کررہی ہيں جن کی مدد سے ايک مريض کے علاج پر ماہانہ 450 روپيہ خرچ ہوتا ہے ليکن ادويات کی اگلی قسم کا خرچ فی مريض 10 ہزار روپے ماہانہ ہوگاتصویر: AP

اخبار کے مطابق اس منصوبے کے اخراجات ميں يقيناً اضافہ ہوگا۔ کئی بھارتی دواسازکمپنياں معياری ادويات کے سستے جينرک متبادل تيار کررہی ہيں جن کی مدد سے ايک مريض کے علاج پر ماہانہ 450 روپيہ خرچ ہوتا ہے۔ ليکن ادويات کی اگلی قسم کا خرچ فی مريض 10 ہزار روپے ماہانہ ہوگا۔ بھارت کے ہندوجا برادران ملک کے سب سے بڑے تجارتی کنسورشیم کے مالک ہيں اور اب ميونخ کا بينک مرک فنک بھی اُنہی کی ملکيت ميں آچکا ہے۔ ليکن شايد ہی کسی اور مثال سے ايک تيزی سے ابھرتے ہوئے ايشيائی صنعتی خاندان کی خوااہشات، مشکلات اور تضادات اتنے اچھے طور پر ظاہر ہوتے ہوں جتنا کہ ہندوجا برادران کی مثال سے۔ چاروں بھائی، خاص طور پر طبی ريسرچ، ثقافت اور اسپورٹس کے شعبوں ميں سرگرم عمل ہيں۔ ليکن بھارت کے کلچر ميں دولت اور طاقت کی نمائش بھی شامل ہے۔ ِ

اخبار FRANKFURTER ALLGEMEIMNE ZEITUNG تحرير کرتا ہے: يہی وجہ ہے کہ يہ بھائی ايک طرف تو غريبوں کی حمايت کرتے ہیں اور دوسری طرف لندن ميں 6 ہزار مربع ميٹر کے رقبے پر اُن کی پرتعيش رہائش گاہ بھی ہے۔ يہ شہر کے بہترين علاقے ميں ملکہء برطانيہ کی سابق ثانوی قيام گاہ ہے۔ ہندوجا برادران، بھارت کے عام دستور کے مطابق پس پردہ رہتے ہوئے سياست پر اثر انداز ہونے کا فن بھی جانتے ہيں۔ سن 1990ء کےعشرے ميں تو بھارتی حکومت نے ہندوجا برادران پر سويڈن کی فرم بوفورس سے ايک کاروباری سودے ميں 7ملين ڈالر وصول کرنے کا الزام بھی لگايا تھا۔''


پرویز مشرف کی سیاست میں واپسی

پاکستان کے سابق صدر پرويز مشرف نے اعلان کيا ہے کہ وہ لندن چھوڑ کر وطن واپس جانے اور وہاں دوبارہ کوئی عہدہ حاصل کرنا چاہتے ہيں۔ انہوں نے خاص طور پر وزيراعظم يا صدر کے عہدے کا اميدواربننے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ پاکستان ميں ان کے اس اعلان پر کھلبلی سی مچ گئی ہے۔ اخبار SـDDEUTSCHE ZEITUNG امريکی ٹیلی ویژن سی۔اين۔اين کو ديے گئے اس انٹرويو ميں مشرف کے اعلان کے بارے ميں لکھتا ہے:

Musharraf bei der Volksabstimmung in Pakistan
پاکستان کے سابق صدر پرويز مشرف نے اعلان کيا ہے کہ وہ لندن چھوڑ کر وطن واپس جانے اور وہاں دوبارہ کوئی عہدہ حاصل کرنا چاہتے ہيںتصویر: AP

٫٫فوج کے سربراہ جنرل پرويز مشرف نے سن 1999ء ميں خون بہائے بغير انقلاب برپا کرکے ايک نااہل اور کرپٹ سول حکومت کے دور کا خاتمہ کرديا تھا۔ عوام نے ان کی فوجی بغاوت پر خوشياں منائی تھيں ليکن 11 ستمبر سن 2001ء نے افغانستان کے اس ہمسائے اور اُس وقت تک طالبان کے قريبی ساتھی ملک کے حالات کو يکسر تبديل کرديا۔ صدر بش نے پاکستان کو يا تو دہشت گردی کے مقابلے کے لئے امريکہ کا ساتھی بننے اور يا پھر امريکہ کا مخالف بن جانے ميں سے کوئی ايک راہ منتخب کرنے کے چيلنج سے دوچار کرديا۔

اخبار کے مطابق صدر مشرف نے امريکہ کا ساتھ دينے کا فيصلہ کيا۔ اس کے ساتھ ہی مشرف نے ايک دوہرے کھيل کا آغاز کرديا۔ ايک طرف تو وہ واشنگٹن کے مثالی اتحادی تھے، جس کی فوج کو امريکہ کی اربوں ڈالر کی مدد مل رہی تھی اور دوسری طرف جنرل مشرف نے طالبان کو بہت وسيع علاقوں ميں آزادياں دیں اور اُن سے ايسے سمجھوتے کئے جن سے طالبان مزيد طاقتور ہوتے گئے۔ تاہم، سپريم کورٹ کے چيف جسٹس نے آرمی کے سربراہ اور صدر کی حیثیت سے مشرف کے دوہرے عہدے رکھنے کو آئين کی خلاف ورزی قرار ديا۔ مشرف نے ہنگامی حالات کا نفاذ کيا اور اپنے اقتدار کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی، ليکن وہ ناکام رہے۔ پہلے انہوں نے فوجی سربراہ کے عہدے سے استعفیٰ ديا اور پھر وہ اپنی صدارت کے عدالت ميں چيلنج کئےجانے سے بچنے کے لئے ملک سے باہر چلے گئے۔

US-Präsident George W. Bush mit Pakistans Präsident Pervez Musharraf
اخبار کے مطابق صدر مشرف نے جب امريکہ کا ساتھ دينے کا فيصلہ کيا تو ساتھ ہی دوہرے کھيل کا آغاز بھی کيا ، ايک طرف تو فوج کو امريکہ کی اربوں ڈالر کی مدد مل رہی تھی دوسری طرف جنرل مشرف نے طالبان کو بہت وسيع علاقوں ميں آزادياں دیںتصویر: AP

اخبار BERLINER ZEITUNG اسی موضوع پر لکھتا ہے: ’’سابق صدر پرويز مشرف کو پاکستان لوٹنے سے قبل کئی قانونی رکاوٹيں عبور کرنا ہوں گی۔ انہوں نے خود اپنے آپ اور صدر آصف زرداری کو سزا سے بچانے کے لئے معافی کا جو قانون جاری کيا تھا،اسے سپريم کورٹ نے منسوخ کرديا ہے۔

اخبار کے مطابق اس کے علاوہ ان کی حکومت ميں لاپتہ ہوجانے والے افراد کے عزيزوں نے ان پر مقدمات قائم کرديے ہيں۔ مشرف کے لئے سن 2013ء تک ايک نئی پارٹی بنانا بھی مشکل ہوگا۔ ليکن وہ يہ اميد لگائے ہوئے ہيں کہ سول سياستدانوں سے بيزار پاکستانی اُن کا اسی طرح خير مقدم کريں گے جيسا کہ انہوں نے 1999ء ميں سول وزيراعظم نواز شريف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد شروع کے دور ميں کيا تھا۔ ‘‘

جائزہ : شہاب احمد صدیقی

ادارت : سائر حسن