1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جسمانی اعضاء کا عطیہ: رجسٹرڈ پاکستانیوں کی تعداد چودہ سو

28 جولائی 2010

اپنے اعضاء عطیہ کرنے کے خواہش مند پاکستانی افراد کو یہ قانونی حق قریب 18 برس قبل ملا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں یہ فیصلے کر سکیں کہ ان کے جسمانی اعضاء بعد از مرگ بہت بیمار مریضوں کی زندگیاں بچانے کے لئے استعمال کئے جائیں۔

https://p.dw.com/p/OW45
اعضاء کی پیوندکاری سے ہر سال بے شمار جانیں بچا لی جاتی ہیںتصویر: AP

1990 کے عشرے کے اوائل میں اس قانونی سازی کے لئے بہت زیادہ محنت سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ SIUT نے کی تھی اور تب سے لے کر آج تک قریب 1400 افراد اپنے جسمانی اعضاء کے بعد از مرگ عطیات کے لئے اس ادارے کے پاس اپنا باقاعدہ اندراج کروا چکے ہیں۔

اسی ادارے میں ابھی حال ہی میں پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے بھی اپنا اندراج کرا دیا، جس کے بعد انہوں نے اس انسٹیٹیوٹ کے جاری کردہ اپنے نام کے ڈونر کارڈ پر دستخط بھی کر دئے۔ اس کا مطلب یہ کہ اس ادارے کو اب یہ قانونی اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ آصف زرداری کے انتقال کے بعد ان کے جسمانی اعضاء ضرورت مند مریضوں کو لگا دئے جائیں۔

یوں آصف علی زرداری پاکستان کے ایسے پہلے سویلین صدر بن چکے ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے اعضاء عطیہ کرنے کا ذاتی لیکن قانونی فیصلہ کیا ہے۔ ان سے قبل ماضی کے پاکستانی فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے بھی اپنی زندگی میں ہی اپنی آنکھیں عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر ان کی اس خواہش پر ان کی ایک طیارے کے حادثے بہت سے دیگر افراد کے ساتھ ہلاکت کی وجہ سے عمل نہیں ہو سکا تھا۔

Thema Organspende Organbox
عطیہ کردہ اعضاء کو پیوندکاری سے پہلےخاص طرح کے ڈبوں میں بالکل تازہ رکھا جاتا ہےتصویر: Deutsche Stiftung Organtransplantation

پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر کراچی میں SIUT نامی ادارے کے دورے کے دوران صدر زرداری نے یہ بھی کہا تھا کہ اس انسٹیٹیوٹ کے روح رواں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی پاکستان میں جسمانی اعضاء عطیہ کرنے کی تحریک کے لئے خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ پاکستان سرکاری طور پر ان کا نام نوبل انعام کے لئے تجویز کرے گا۔

اس موقع پر ڈاکٹر رضوی نے پاکستانی صدر کی طرف سے اپنے اعضاء عطیہ کرنے کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری کے اس اقدام سے عام پاکستانی شہریوں کو بھی اپنے جسمانی اعضاء انتہائی بیمار انسانوں کی زندگیاں بچانے کے لئے عطیہ کرنے کے سلسلے میں تحریک ملے گی۔

پاکستان میں کئی عوامی حلقے صدر زرداری کی طرف سے اس حکومتی فیصلے کی باقاعدہ منظوری کا بھی بہت خیرم مقدم کر رہے ہیں کہ پاکستانی شہریوں کو جاری کئے جانے والے سرکاری شناختی کارڈوں میں مستقبل میں اعضاء عطیہ کرنے سے متعلق ایک کالم بھی شامل کر دیا جائے گا۔

اکثریتی طور پر مسلمان آبادی والے پاکستان میں شہریوں کو اس بات کا قائل کرنا کہ وہ اپنے اعضاء بعد از مرگ عطیہ کرنے کے فیصلے کریں، اس لئے اب تک قدرے مشکل کام ثابت ہوا ہے کہ کئی اسلامی مذہبی حلقے آج بھی جسمانی اعضاء کے عطیہ کئے جانے کے خلاف ہیں۔ ایسے مذہبی عناصر کے مطابق موت کے بعد کسی مسلمان کے جسم کے اعضاء نکالنا اس کی میت کی بے حرمتی کے زمرے میں آتا ہے۔

رپورٹ: رفعت سعید، کراچی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں