1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن یونیورسٹیوں میں اسلامیات کے اساتذہ کی تربیت

4 فروری 2010

جرمن یونیورسٹیوں میں آئندہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اسلامیات کے اساتذہ کو تربیت دی جانی چاہیے۔ یہ تجویز جرمن تحقیقی کونسل کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/Lt1v
جرمن سکولوں میں پڑھائی جانے والی عربی اور جرمن زبانوں میں شائع شدہ اسلامیات کی ایک کتابتصویر: AP

جرمنی میں مسلمانوں کی تعداد کا اندازہ چارملین لگایا جاتا ہے۔ جرمن معاشرے میں عام افراد کے بہت متنوع مذہبی پس منظر کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جرمن تحقیقی کونسل نے اب یہ سفارش کی ہے کہ کم ازکم دو تین یونیورسٹیوں میں اسلامی علوم کے خصوصی ادارے قائم کئے جائیں۔

یہ یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ قائم کرنے کا مقصد یہ ہو گا کہ اسکولوں میں طلبہ و طالبات کو اسلامی علوم کی تعلیم دینے والے اساتذہ اور مسجدوں میں اماموں کے فرائض انجام دینے والوں کی ایک نئی پود بھی تیار کی جا سکے اور سماجی سطح پر ایسے ماہرین اور محققین کی کمی کو بھی پورا کیا جا سکے جو اسلامی علوم پر دسترس رکھتے ہوں۔

یہ ادارہ گزشتہ پ‍انچ عشروں سے بھی زائد عرصے سے جرمنی میں یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم میں بہتری اور ترقی کے لئے وفاق اور صوبوں کی مشاورت کا کام کرتا ہے۔ ماہرین کی اس کونسل کی طرف سے دی گئی کسی بھی تجویز کی آج تک اتنی زیادہ سماجی تائید و حمایت نہیں کی گئی جتنی کہ ملکی یونیورسٹیوں میں اسلامیات کے اساتذہ کی تربیت کی تجویز کی۔

Türkische Muslime beten am Freitag in einer Moschee in Köln
کولون کی ایک مسجد میں نمازی جمعے کی نماز پڑھتے ہوئے: جرمن حکومت کی خواہش ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی مسجدوں کے امام آئندہ جرمنی ہی میں تربیت یافتہ ہوںتصویر: picture-alliance/dpa

اسلام میں مذہبی حوالے سے کلیسائی ڈھانچے کی طرح کا کوئی نظام نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی میں محکمہ تعلیم کے حکام کو اس حوالے سے مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والا کوئی مرکزی پارٹنر ادارہ بھی دستیاب نہیں۔ لہٰذا جرمن تحقیقی کونسل نے وفاق اور صوبوں کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ علوم اسلامی کی تعلیم کے سلسلے میں یونیورسٹیوں کی رہنمائی کے لئےمشاورتی کونسلیں بھی قائم کی جائیں۔

ان مشاورتی کونسلوں کی ذمہ داری یہ ہو گی کہ وہ تربیتی طریقہ کار اور تعلیمی نصاب وضع کرنے میں یونیورسٹیوں کا ہاتھ بٹائیں اور وہاں تعلیم دینے والے ماہرین کے انتخاب کے وقت اپنی وہ رائے بھی دے سکیں جسے نظر انداز کرنا ممکن نہ ہو۔

جرمن تحقیقی کونسل کی تجویز کے مطابق یونیورسٹیوں کے اسلامی تعلیمی اداروں کی معاون ایسی مشاورتی کونسلوں میں مسلمانوں کی مرکزی تنظیموں کے اعلیٰ نمائندے بھی شامل ہونا چاہیئں اور اسلامی علوم کے ماہرین کے علاوہ عوامی شعبے کی سرکردہ شخصیات بھی۔

ایک اندازے کے مطابق جرمنی میں اس وقت عام سکولوں میں اسلامی علوم کی تعلیم کے لئے تقریبا دوہزار اساتذہ کی ضرورت ہے۔ لیکن ان میں سے اب تک مجموعی طور پر صرف 350 اساتذہ بھی دستیاب ہیں۔ جرمن تحقیقی کونسل کا اندازہ ہے کہ مختلف یونیورسٹیوں میں آئندہ اسلامی علوم کے جو خصوصی ادارے قائم کئے جائیں گے، ان میں سے ہر ایک پر اٹھنے والے سالانہ اخراجات کی مالیت 1.5 ملین یورو تک ہو گئی۔

جرمنی میں مسجدوں میں اماموں کے طور پر فرائض انجام دینے والے مسلمانوں کی اندرون ملک دینی تربیت کے لئے اب تک محض چند ایک یونیورسٹیوں میں ہی تعلیمی سہولیات دستیاب ہیں۔ ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے ایسے تعلیمی اداروں میں سے سب سے نمایاں اور مقابلتاً پرانا تعلیمی ادارہ شمالی شہر اوسنابرک کی یونیورسٹی ہے۔ وہاں گزشتہ ڈھائی سال سے طلبہ کو باقاعدہ ڈگری کورس کی صورت میں ایسی تربیت دی جاتی ہے، جس کے بعد وہ جرمن اسکولوں میں اسلامیات کے اساتذہ کے طور پر بچوں کو تعلیم دینے کے اہل ہو جاتے ہیں۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں