1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
11 تصاویر
علی کیفی Antje Herzog / Conor Dillon
27 مارچ 2017
https://p.dw.com/p/2a2cX

 

 

زیادہ باورچی کھانا خراب کر دیتے ہیں
اس جرمن محاورے کا مطلب سیدھا سادا ہے کہ اگر کسی واضح قیادت کے بغیر زیادہ لوگ کسی منصوبے کو سرانجام دینے کی کوشش کریں گے تو وہ پایہٴ تکمیل کو کم ہی پہنچ پائے گا۔ جرمنی میں کام کی جگہوں پر ایسا اکثر نظر آتا ہے کہ کام خواہ جتنے مرضی لوگ انجام دیں، اُنہیں ہدایات کوئی ایک شخص ہی دیتا ہے۔ اُردو میں ’دو ملاؤں میں مرغی حرام‘ کسی حد تک ملتی جُلتی کہاوت ہے۔

جھوٹ کے پاؤں چھوٹے ہوتے ہیں
یہ محاورہ کئی زبانوں میں پایا جاتا ہے۔ چھوٹے پاؤں سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ چھوٹے قد کے لوگ زیادہ جھوٹ بولتے ہیں۔ مطلب یہی ہے کہ جھوٹ زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا، جلد پکڑا جاتا ہے۔ اردو زبان میں تو سرے سے جھوٹ کے پاؤں ہی نہیں ہوتے۔ 

 

ہر شخص اپنی قسمت خود بناتا ہے
اس کہاوت کا لفظی مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اپنی قسمت خود ’گھڑ کر بناتا‘ ہے۔ اس کہاوت کی جڑیں جرمن زبان و ادب میں نہیں بلکہ پہلی بار یہ کہاوت تین سو قبل مسیح میں ایک رومی سیاستدان نے لاطینی زبان میں کہی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ انسان محنت اور کوشش سے جو چاہے، حاصل کر سکتا ہے۔ 

چھت پر بیٹھے  کبوتر سے ہاتھ میں آ گئی چڑیا بہتر ہے
اردو میں کہا جاتا ہے کہ ’بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘۔ اس جرمن کہاوت میں بھی ہمیشہ زیادہ سے زیادہ کی خواہش کرنے سے خبردار کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کہاوت لاطینی زبان و ادب سے آئی ہے، جہاں یہ کہا گیا ہے کہ ہاتھ میں آ گیا پرندہ جنگل میں موجود ہزاروں پرندوں سے بہتر ہے۔ انگریزی میں اس سے ملتی جُلتی کہاوت ہے کہ ہاتھ میں موجود ایک پرندہ جنگل میں موجود دو پرندوں سے بہتر ہے۔ 

 

انسان اُس شاخ کو نہیں کاٹتا، جس پر وہ بیٹھا ہوتا ہے
اردو میں محاورے کی زبان میں اس سے ملتی جُلتی کہاوت ہے، اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار لینا یا پھر جس تھالی میں کھانا، اُسی میں چھید کرنا۔ مطلب یہ کہ انسان ایسے بہت سے کام کر لیتا ہے، جن کے نتیجے میں اُسے نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ یہ جرمن محاورہ ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ 

 

شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر نہیں پھینکنے چاہییں
اس محاورے کی جڑیں جرمن سرزمین میں ہیں اور اس کے ڈانڈے بائبل کے اُس واقعے سے ملتے ہیں، جس میں حضرتِ عیسیٰ نے کہا تھا کہ ایک گناہ گار کو پتھر صرف وہی مارے، جس نے خود کبھی گناہ نہ کیا ہو۔ اسی لیے اس جرمن کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک گویا شیشے کے ایک گھر میں بیٹھا ہوا ہے، ایسے میں دوسروں پر انگلی اٹھانے سے گریز کرنا چاہیے۔

 

جو خوبصورت بننا چاہتا ہے، اُسے تکلیف اُٹھانا پڑتی ہے
کہاوتوں کے جرمن ماہرین بھی نہیں جان پائے کہ یہ کہاوت کہاں سے آئی ہے لیکن اس کا پیغام انتہائی واضح ہے: خوبصورتی قربانی مانگتی ہے۔ لڑکیاں ماڈل بننے کے لیے بھوک برداشت کرتی ہیں، لوگ جسم پر ٹیٹو بنوانے کے لیے تکلیف سے گزرتے ہیں۔ انگریزی میں ملتا جُلتا محاورہ ہے، ’نو پین، نو گین‘۔

 

سب سے پہلے چوہے کسی ڈوبتے جہاز کو چھوڑتے ہیں
قدیم زمانوں میں جب لوگ بحری جہازوں پر سفر کرتے تھے تو نیچے والے حصے میں کوئی شگاف پڑنے کی صورت میں چوہے اوپر آنا شروع ہو جاتے تھے۔ اس سے لوگ یہ ماننا شروع ہو گئے کہ چوہے کسی آنے والے ناخوشگوار واقعے کی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔ آج کل یہ کہاوت اُن لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو مشکل وقت میں کسی ادارے کو چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔

 

مچھلی ہمیشہ سر سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے
جب مچھلی مرتی ہے تو اُس کا سر سب سے پہلے گلنا سڑنا شروع کر دیتا ہے اور اسی لیے سب سے پہلے بُو بھی اُسی میں سے آتی ہے۔ یہ کہاوت تب بولی جاتی ہے، جب قیادت ہی اپنی کمپنی یا اپنی سیاسی جماعت کو تباہ کرنے کا باعث بننے لگتی ہے۔ جرمنی میں اس کہاوت کو سن 2000ء میں شہرت ملی، جب سابق چانسلر گیرہارڈ شروئیڈر نے یہی کہاوت ایک دوسری جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ کے لیے استعمال کی۔

 

ایک ہاتھ دوسرے کو دھوتا ہے
مدد کہاں ختم ہوتی ہے اور کرپشن کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ یہ جرمن کہاوت کچھ ایسا ہی مفہوم رکھتی ہے کہ مجرم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، مثال کے طور پر ایک مالدار شخص کسی بدعنوان سیاستدان کو پیسہ دیتا ہے۔ اردو زبان والے بھی اس سے ملتی جُلتی کہاوت کے لیے فارسی زبان کی کہاوت من ترا حاجی بگویم، تُو مرا ملا بگو استعمال کرتے ہیں۔ یہ ضرب المثل تب استعمال ہوتی ہے، جب لوگ ایک دوسرے کی تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ اگلا بھی جواب میں تعریفی کلمات کہے۔

 

 

بولنا چاندی ہے، خاموشی سونا
اس جرمن کہاوت کے مطابق باتیں کرنا اور بولنا اگر چاندی ہے تو خاموشی اس سے کہیں بہتر یعنی سونا ہے۔ جب تک کوئی شخص زبان نہیں کھولتا، ہم اُس کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کر پاتے۔ جیسے ہی وہ گفتگو کرنا شروع  کرتا ہے، اُس کی اصلیت ہم پر کھل جاتی ہے۔ لقمان حکیم کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے، جہاں ایک پوری سورۃ اُن سے موسوم ہے۔ اس دانا شخص کے ایک قول کا حوالہ تیرہویں صدی کے مسلمان عالم ابن کثیر نے دیا تھا، جو یہ تھا:’’اگر لفظ چاندی ہیں تو خاموشی سونا ہے۔‘‘