1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن چانسلر کا دورہ افغانستان

کشور مصطفیٰ6 اپریل 2009

جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور وفاقی جرمن وزیر دفاع ایک غیر متوقع دورے پر آج افغانستان پہنچے۔ دونوں نے افغانستان متعین جرمن فوجی کے اڈوں کا دورہ کیا۔

https://p.dw.com/p/HRNU
میرکل نے اپنے دورے میں جرمن فوجیوں سے ملاقاتیں کیںتصویر: AP

جرمن چانسلر کے اس دورے سے محض ایک روز قبل قندوز کے مضافات میں جرمن فوجیوں پر دو حملے ہوئے تھے۔ تاہم اس میں کوئی زخمی نہیں ہوا تھا۔ جرمن چانسلر اور جرمنی کے وزیر دفاع کے اس دورے کو گزشتہ ویک اینڈ پر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی جانب سے امریکی صدر باراک اوباما کی پیش کردہ نئی افغانستان اسٹریٹیجی پر اتفاق رائے کے تناظر میں غیر معمولی اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے۔

بہت کم کسی سیاستدان یا حکومتی سربراہ کے غیر ملکی دورے کو اس قدر راز میں رکھا جاتا ہے جتنا کہ جرمن چانسلر کے اس دورہ افغانستان کو رکھا گیا۔ اس دورے کی خبر اس وقت عام ہوئی جب جرمن چانسلر اور جرمن وزیر دفاع شمالی افغانستان پہنچ چکے تھے۔ جرمن چانسلر کے ہمراہ اس دورے پر محض 8 چیدہ صحافی افغانستان گئے ہیں۔ غالبا برلن کے دفتر خارجہ کو بھی چانسلر میرکل کے اس دورے کے بارے میں بہت دیر سے آگاہی ہوئی۔ وفاقی حکومت کے ترجمان Thomas Stag کے مطابق چانسلر میرکل قندوز میں اپنے فوجی کیمپ کا دورہ کر کہ نکلی ہی تھیں کے 20 منٹ کے اندر اندر اس علاقے میں ایک راکٹ حملہ ہوا۔ برلن میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے Steg نے کہا:’’ آپ کو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہونا چاہئے۔ اس صورتحال میں چانسلر کے افغانستان کے دورے اور شمالی افغانستان میں ان کی مصروفات سے متعلق اطلاعات عام کرنا قطعا ضروری نہیں تھا۔‘‘

وفاقی جرمن وزارت دفاع کے مطابق قندوز کے جرمن فوجی اڈے پر اس سال 9 حملے ہوچکے ہیں۔ وزارت دفاع کے ترجمان Christian Dienst کا کہنا ہے: ’’قندوز ہوٹ اسپوٹ یا ایک حساس، شورش زدہ علاقہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم جن دیگر افغان صوبوں میں مصروف عمل ہیں وہ پر سکون ہیں۔‘‘

جرمن چانسلر نے اپنے اس دورے کے دوران کابل میں افغان صدر سے ملاقات نہیں کی نہ ہی کوئی سیاسی مذاکرات عمل میں آئے تاہم میرکل نے گزشتہ روز صدر کرزائی سے ٹیلی فون پر بات چیت کی تھی۔ جس میں جرمن چانسلر نے افغانستان کی پارلیمان میں پیش کردہ شعیہ آبادی والے علاقے ہزارہ کے باشندوں کے لئے ازدواجی زندگی سے متعلق ایک متنازعہ بل کے بارے میں بات کی۔ حکومتی ترجمان Steg کے مطابق: ’’افغان پارلیمان میں پیش کیے جانے والے اس بل کو جرمن حکومت اور خود چانسلر میرکل مردوں اور خواتین کے مساوی حقوق کے بر خلاف سمجھتی ہیں۔ اس لئے چانسلر میرکل نے صدر کرزائی سے ایک بار پھر اس بل کو قانونی شکل دینے سے پہلے نظر ثانی کی اپیل کی ہے۔ افغان صدر نے یقین دلایا ہے کہ اس موضوع کوعالمی میڈیا نے جس طرح اٹھایا ہے اور اس پر بین الاقوامی رد عمل کے پیش نظر وہ اس متنازعہ موضوع پر سنجیدگی سے غورو خوض کر رہے ہیں۔‘‘

گزشتہ ویک اینڈ پر جرمنی اور فرانسیسی شہروں میں منعقد ہونے والے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں بشمول جرمن چانسلر، امریکی صدر اوباما اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ اس قسم کے قوانین کو مغربی برادری حقوق نسواں کی سنگین پامالی تصور کرتی ہے۔ نیٹو کے اجلاس میں جہاں افغانستان اور پاکستان سے متعلق باراک اوباما کی نئی اسٹریٹیجی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی وہاں یہ متنازعہ بل بھی ہر کسی کی توجہ اور تنقید کا نشانہ بنا رہا۔

افغانستان میں چانسلر میرکل کی متوقع سرگرمیوں کے بارے میں برلن میں مکمل خاموشی پائی جاتی ہے۔ دریں اثناء تازہ ترین اطلاعات کے مطابق انگیلا میرکل مزارے شریف پہنچی ہیں جہاں وہ غالبا ایک پریس کانفرنس سے خطاب کریں گی۔