1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن چانسلر میرکل ترکی پہنچ گئیں، ایردوآن سے ملاقات

علی کیفی Reuters. dpa
2 فروری 2017

ترکی کے دورے پر گئی ہوئی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے دارالحکومت انقرہ میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے ملاقات کی ہے۔ میرکل کے اس دورے کو تنقید کا بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2Wr4z
Türkei Treffen Angela Merkel & Recep Tayyip Erdogan
جرمن چانسلر انگیلا میرکل دو فروری 2017ء کو انفرہ میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے ملاقات کر رہی ہیںتصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/K. Azher

بحیرہٴ روم کی جزیرہ ریاست مالٹا میں یورپی یونین کی سربراہ کانفرنس میں بنیادی موضوع مہاجرین کا بحران ہے اور اس کانفرنس سے ایک روز قبل چانسلر انگیلا میرکل ترکی میں صدر رجب طیب ایردوآن اور وزیر اعظم بن علی یلدرم کے ساتھ اُس ڈیل پر بات کر رہی ہیں، جو گزشتہ برس یورپی یونین اور انقرہ کے درمیان طے ہوا تھا اور جس کا مقصد یورپ کی جانب مہاجرین کے بہاؤ کو روکنا ہے۔

انگیلا میرکل ترکی میں گزشتہ سال جولائی کی اُس ناکام بغاوت کے بعد سے پہلی مرتبہ ترکی کا دورہ کر رہی ہیں، جس کے بعد اس ملک میں ایک بڑا حکومتی کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا تھا۔ شروع شروع میں یہ کریک ڈاؤن امریکا میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کے حامیوں کے خلاف تھا، جنہیں موجودہ ترک حکمران بغاوت کے پیچھے کارفرما اصل قوت سمجھتے ہیں تاہم بعد ازاں اپوزیشن کے دیگر دھڑے بھی حکومتی کریک ڈاؤن کی زَد میں آتے چلے گئے۔

اب تک ترکی میں گولن کے تینتالیس ہزار سے زیادہ حامیوں کو جیل ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انقرہ حکومت نے کُرد قوم پرستوں کے خلاف بھی، جنہیں وہ دہشت گردی کے لیے مُوردِ الزام ٹھہراتی ہے، اپنے اقدامات تیز تر کر دیے ہیں۔

Türkei verlängert Ausnahmezustand - Yildirim
ترک وزیر اعظم بن علی یلدرمتصویر: picture alliance/abaca/M. A. Ozcan

جرمنی اور یورپی یونین کے دیگر رکن ملکوں نے اس امر پر تشویش کا اظہارکیا ہے کہ ایردوآن اپنے ملک میں آئین اور قانون کی حکومت اور اظہارِ رائے کی آزادی کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ میرکل  کا دورہ ترکی میں صدارتی نظام رائج کرنے کے موضوع پر مجوزہ ریفرنڈم سے پہلے عمل میں آ رہا ہے اور یورپی یونین کا موقف یہ ہے کہ اس ریفرنڈم کے نتیجے میں ملکی آئین میں ترامیم متعارف کروانے کے منصوبے کا مقصد پارلیمنٹ کو کمزور کرنا اور صدر کے عہدے کے اختیارات میں بڑے پیمانے پر توسیع کرنا ہے۔

ترک حکومتی قائدین کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد میرکل شام کو بائیں بازو کی اعتدال پسند پیپلز ری پبلکن پارٹی (CHP) اور کُرد نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) کے ارکان کے ساتھ بھی ملاقات کر رہی ہیں۔

ایچ ڈی پی بھی گزشتہ کئی مہینوں سے حکومت کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور درجنوں منتخب میئرز اور بارہ اراکینِ پارلیمان سمیت اس کے ہزاروں ارکان جیلوں میں ہیں۔ ان سب پر اکثر دہشت گردانہ پراپیگنڈا پھیلانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ایچ ڈی پی کا کہنا یہ ہے کہ اُسے نئے آئین کی مخالفت کرنے اور اختیارات کی عدم مرکزیت کی تجویز دینے پر دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

Türkei Treffen Angela Merkel & Recep Tayyip Erdogan
میرکل پر الزام ہے کہ وہ جرمنی میں مجوزہ آئندہ انتخابات سے پہلے جرمنی میں مہاجرین کی آمد میں اضافے کو روکنا چاہتی ہیں اور اسی لیے ایردوآن کے زیرِ بارِ احسان نظر آتی ہیںتصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/K. Azher

گزشتہ سال جولائی کی ناکام بغاوت سے پہلے ہی جرمنی اور ترکی کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونا شروع ہو گئے تھے، جزوی طور پر اس بات پر بھی کہ برلن پارلیمنٹ نے پہلی عالمی جنگ کے دوران سلطنتِ عثمانیہ کی جانب سے آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کو نسل کُشی قرار دے دیا تھا۔

ناقدین میرکل پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ جرمنی میں آئندہ عام انتخابات میں مہاجرین مخالف جماعت ’آلٹرنیٹیو فار جرمنی‘ کی طرف سے درپیش چیلنج کے پیشِ نظر انتخابات سے پہلے جرمنی میں مہاجرین کی آمد میں اضافے کو روکنا چاہتی ہیں اور اسی لیے ایردوآن کے زیرِ بارِ احسان نظر آتی ہیں۔

اُدھر ترکی اس بات پر برہم ہے کہ اگرچہ وہ شام سے ترکی پہنچنے والے دو ملین سے زائد شامی مہاجرین کی میزبانی کرنے پر مجبور ہے تاہم یورپ اس سلسلے میں اُس کی مدد نہیں کر رہا ہے۔ ترکی یہ بھی چاہتا ہے کہ یورپی ممالک مہاجرین کو اپنے ہاں بسانے کی کوششیں تیز تر کریں۔

ترک قائدین کے ساتھ ملاقاتوں میں اُن ترک فوجیوں کا مسئلہ بھی زیرِ بحث آنے کی توقع کی جا رہی ہے، جو انقرہ حکومت کو گزشتہ سال کی ناکام بغاوت کے سلسلے میں مطلوب ہیں اور جنہوں نے جرمنی پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواستیں دے دی ہیں۔