جرمن پولیس نے دو مبینہ انسانی اسمگلروں کو گرفتار کر لیا
26 اپریل 2017جرمن صوبے لوئر سیکسنی میں ایک اسٹیٹ پراسیکیوٹر اولیور آئیزن ہاؤر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو اس حوالے سے بتایا:’’ہم فی الحال ایسے دس مقدمات کی تفتیش کر رہے ہیں اور ایسے کیسز کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔‘‘
آئیزن ہاؤر کا کہنا تھا کہ اس تناظر میں ایران میں جرمن سفارتخانے میں تعینات ایک ایرانی سمیت چار مزید افراد کے بارے میں چھان بین جاری ہے کہ آیا وہ انسانی اسمگلنگ کی ممکنہ منصوبہ بندی میں شریک تو نہیں، تاہم تاحال کوئی گرفتاری وارنٹ جاری نہیں کیے گئے۔ جرمنی میں دونوں افراد کو شمالی شہر ہینوور سے گرفتار کیا گیا تھا۔
آئیزن ہاؤر کے مطابق ایک سینتیس سالہ ایرانی باشندے نے جعلی دستاویزات بنانے والوں، مترجمین اور وکلاء کے ایک نیٹ ورک کی مدد کا وعدہ کرتے ہوئے فیس بُک پر اپنی خدمات کی پیشکش کی تھی۔ اس کام کے لیے مطلوبہ فیس دس ہزار یورو اور بعض صورتوں میں اس سے کہیں زیادہ بتائی گئی تھی۔
جرمن وفاقی پولیس اور پراسیکیوٹر کے دفتر کی طرف سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ دوسرا زیرِ حراست شخص ایک چَوّن سالہ جرمن مترجم ہے، جس نے پیسوں کے بدلے پناہ کی درخواستوں کے کیسز کے حوالے سے مہاجرین کی تربیت کی تھی۔ ان مہاجرین میں سے زیادہ تر کا تعلق ایران سے ہے۔ ان دونوں گرفتار شدہ افراد کے نام پوشیدہ رکھے گئے ہیں۔
آئیزن ہاؤر نے مزید بتایا کہ جرمن مترجم نے مسیحی مذہب قبول کرنے اور چرچ میں عبادات میں شریک ہونے کے سلسلے میں تارکین وطن کی حوصلہ افزائی کی۔ علاوہ ازیں انہیں جرمنی سے جبری طور پر واپس ایران بھیجے جانے سے بچنے کے لیے مسیحیوں کی مقدس کتاب بائبل میں سے چند ایسے اقتباسات بھی بتائے، جن کی رُو سے مذہب کی تبدیلی کی بناء پر اپنے ملک واپسی پر اُنہیں جبر و ستم کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔
اس بیان سے تاہم یہ واضح نہیں کہ اِن تارکینِ وطن نے کن گرجا گھروں میں حاضری دی تھی۔ ایک مشترکہ بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ برلن اور جرمنی کی سات دیگر ریاستوں میں گھروں اور دفاتر پر چھاپوں کے دوران دو خالی پستول، موبائل فونز، لیپ ٹاپ اور جعلی دستاویزات بھی برآمد کی گئی ہیں۔ اس تفتیش کا آغاز مارچ سن 2016 میں کیا گیا تھا۔
ایران سے تعلق رکھنے والے مرکزی ملزم کی بیوی اور والدہ سے بھی پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ اسٹیٹ پراسیکیوٹر اولیور آئیزن ہاؤر کے مطابق اگر ان ملزمان پر جرم ثابت ہو جاتا ہے تو اِنہیں چھ ماہ سے دس سال تک کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔