1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن پولیس افسران اور لیبیا

9 اپریل 2008

جرمن فوج اور پولیس کے سپاہیوں کا اپنے طور پر لیبیا جا کر وہاں کی سیکیورٹی فورسز کو تربیت فراہم کرنے کے معاملے پر یہاں ملک میں زیادہ سے زیادہ برہمی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ 9 اپریل، بروز بدھ وفاقی جرمن پارلیمان کی نگران کمیٹی نے اپنے ایک خصوصی اجلاس میں اِس معاملے پر غور کیا۔ اس موضوع پر ڈوئچے ویلے کے Peter Philipp کا لکھا تبصرہ

https://p.dw.com/p/Di7U
۱۳ ستمبر سن ۲۰۰۰ ء کو اُس وقت کے وفاقی جرمن وزیر خارجہ ژوشکا فشر لیبیا کے قائد معمر القذافی کے بیٹے سیف الاسلام کے ساتھ طرابلس میں
۱۳ ستمبر سن ۲۰۰۰ ء کو اُس وقت کے وفاقی جرمن وزیر خارجہ ژوشکا فشر لیبیا کے قائد معمر القذافی کے بیٹے سیف الاسلام کے ساتھ طرابلس میںتصویر: AP

سلامتی کے شعبے سے وابستہ جرمن افسران کے نجی طور پر لیبیا جا کر وہاں کی سیکیورٹی فورسز کے ارکان کو تربیت دینے پر جس غم وغصے کا اظہار کیا جا رہا ہے، اُس کے کئی پہلو ہیں۔ اِس سے ایک تو یہ پتہ چلتا ہےکہ حالات کس حد تک جا چکے ہیں اور سیاسی شعبے کے اخلاقی دعووں اور روزمرہ کے حالات میں کتنا بُعد پایا جاتا ہے، اور اصل صورتحال کا علم ہو جانے کے بعد بھی ذمہ دار حکام کیسے معاملے کو بار بار نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جہاں ایک طرف جرمن سیاستدان مشرقِ وُسطےٰ اور شمالی افریقہ کی کئی غیر جمہوری، جابرانہ اور مطلق العنان حکومتوں کو سرکاری طور پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور حالات کو بہتر بنانے پر زور دیتے ہیں، وہاں سیکیورٹی سے متعلقہ جرمن ادارے گذشتہ کئی برسوں سے اِن حکومتوں کے ساتھ روابط رکھتے رہے ہیں اور رکھ رہے ہیں۔

گیارہ ستمبر سن ۲۰۰۱ ء کے واقعات سے بھی پہلے سے سرکاری سطح پر ایسے عرب ممالک کے خفیہ اداروں کے ساتھ بھی اشتراکِ عمل کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی، جہاں انسانی حقوق یا آئین کی حکمرانی کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا۔ چنانچہ عرب دُنیا میں جرمن خفیہ ادارے BND کی سب سے بڑی شاخ صدام حسین کے عراق میں تھی۔ اسی طرح کا اشتراکِ عمل الجزائر، تیونس اور مصر کے خفیہ اداروں کے ساتھ بھی تھا۔ لبنان اور شام میں بھی سرکاری سطح پر روابط رکھے جاتے رہے، حالانکہ ہر کسی کو پتہ تھا کہ وہاں آئینی اور قانونی حدود کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کا موضوع یہاں بھی سیاسی اخلاقیات پر غالب آ جاتا تھا۔

یہ بات درست سہی کہ یہاں معاملہ ایسے ممالک اور عناصر کے ساتھ ہے، جن کا ہم خود انتخاب نہیں کر سکتے۔ اور خود نقصان سے بچنے اور خود کو درپیش خطرے کو کم کرنے کے لئے کبھی کبھی انسان کو کڑوی گولی بھی نکلنا پڑتی ہے۔ ہوتے ہیں ایسے حالات، جب انسان یہ نہیں جاننا چاہتا کہ کسی عرب ملک میں مجرموں سے کن حالات میں اقبالِ جرم کروایا جاتا ہے۔

ایسی دُنیا یقیناً ایک بہتر دُنیا ہے، جہاں اِس طرح کے ہتھکنڈوں کے بغیر کام چل سکتا ہو۔ لیکن اِس طرح کی مثالی صورتِ حال کے جزوی طور پر ہی زیادہ سے زیادہ قریب پہنچنے کے لئے محض اتنا ہی کافی نہیں ہو گا کہ لیبیا کی سیکیورٹی فورسز کے لئےجرمن نجی شعبے کی جانب سے تربیتی کورسوں کے اسکینڈل کی تفصیلات منظرِ عام پر لائی جائیں۔ اِس سے آگے بڑھ کر اِس واقعے سے کچھ نتائج بھی اخذ کئے جانے چاہییں۔

ایک تو اِس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایسا پھر کبھی نہ ہونے پائے۔ دوسرا یہ کہ مختلف وَزارتیں اور خفیہ ادارہ BND آئندہ خود کو یہ کہہ کر بری الذمہ قرار نہ دے پائیں کہ اُنہیں تو اصل حالات کا علم ہی نہیں تھا۔ اب اُن کا یہ کہنا درست ہی کیوں نہ ہو، حقیقت تو یہ ہے کہ اُنہیں اِس کا علم ہونا چاہیے تھا اور اُنہیں اِس کے خلاف پہلے سے ہی کوئی قدم اٹھا لینا چاہیے تھا۔