جرمن وزیر دفاع کا قرن افریقہ کا دورہ
22 دسمبر 2008خلیج عدن کے علاقے میں بحری قذاقوں کے خلاف جرمن بحریہ کا مشن کچھ آسان نہیں ہو گا ۔
جرمن افواج کی فیڈریشن کے صدر Ulrich Kirsch کا کہنا ہے :’’اگر قذاقوں کے اسلحے کو دیکھا جائے تو وہ تیزرفتار کشتیوں اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اس لئے یہ ایک خطرناک مشن ہے جس میں مسلح جھڑپوں تک کی نوبت بھی آ سکتی ہے‘‘۔
جرمن بحریہ کے مشن کی تفصیلات وزارت دفاع کی جانب سے صیغہ راز میں رکھی گئی ہیں۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ انتہائی صورت میں وہ طاقت استعمال کر سکتی ہے۔ تاہم اس کا ہدف قذاقوں کا تعاقب کرنا نہیں بلکہ انہیں اپنی موجودگی سے دہشت زدہ کرنا ہے۔
جرمن وزیر دفاع Franz Josef Jung نے بتایا:’’ہمارا ہدف ہے قذاقوں کے حملوں کو ناکام بنانا، لیکن اگر سنگین صورت حال پیدا ہو جاتی ہے تو ہمارے جنگی بحری جہاز اس کے لئے بھی تیار ہیں۔‘‘
ان فرائض کی انجام دہی کے دوران جرمن بحریہ کا مرکزی فریضہ عالمی خوراک پروگرام کے جہازوں اور مال بردار جہازوں کو تحفظ مہیا کرنا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ چھ جہازوں اور تین جاسوسی طیاروں کا حامل Atalanta Misson صرف علامتی حیثیت رکھتا ہے۔ جرمن وزارت دفاع کے اندازوں کے مطابق صومالیہ اور اس کے ہمسایہ ملکوں کے ساحلوں کے سامنے کے وسیع تر سمندری علاقے پر نظر رکھنے کے لئے کم از کم 500 تک جنگی بحری جہاز درکار ہو سکتے ہیں۔
وفاقی جرمن پارلیمان کی طرف سے فوج کے امور کے نگران Reinhold Robbe کا کہنا ہے:’’ میرے خیال میں یہ مشن اس لئے بھی مناسب ہے کہ صرف بحری جنگی بحری جہازوں کی موجودگی سے ہی بحری قذاق جہازوں کو اغوا کرنے سے باز آ سکتے ہیں۔‘‘
یہ بات ابھی تک واضع نہیں کہ گرفتاری کی صورت میں قذاقوں پر مقدمہ کون چلا ئے گا اور کہاں ۔ جرمنی صرف اسی وقت اپنی عدالتوں میں ایسے ملزمان کے خلاف مقدمہ چلا سکے گا جب جرمن مفادات پر ضرب پڑے گی۔