1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن وزیر داخلہ کا قاہرہ میں خطاب

22 جون 2009

وفاقی جرمن وزیر داخلہ وولف گانگ شوئبلے کی قاہرہ یونیورسٹی میں کل اتوار کے روز کی جانے والی اس تقریر سے، جس میں شوئبلے نے جرمنی میں غیر ملکیوں کے سماجی انضمام کے موضوع پر کھل کر اظہار خیال کیا۔

https://p.dw.com/p/IWmQ
جرمن وزیر داخلہ وولف گانگ شوئبلےتصویر: picture-alliance/ dpa

اس تقریر کو سننے کے لئے 170 کے قریب سیاستدانوں، سماجی ماہرین اور یونیورسٹی کے سرکردہ اساتذہ کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس کا موضوع تھا، جرمنی میں مسلمانوں کے لئے مساوی حقوق اور مواقع! اس موقع پر اپنے خطاب میں جرمن وزیر داخلہ یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ جرمنی میں اکثریتی آبادی کے باشندے اور تارکین وطن مذہبی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح مل کر رہتے ہیں۔

ایک باعقیدہ پروٹسٹنٹ عیسائی شہری کے طور پر دنیا بھر میں مذاہب کو حاصل ہوتی جارہی مقابلتا زیادہ اہمیت پر اپنے اطمیان کا اظہار کرتے ہوئے وولف گانگ شوئبلے نے کہا:’’اس پیش رفت کا ایک پہلو تو بہت مثبت اور حوصلہ افزاء ہے۔ مذہب کسی بھی فرد یا برادری کی اقدار کا تعین کرنے والے اہم ترین ذرائع میں شمار ہوتا ہے۔ اسی لئے آج بھی مذہبی اعتقاد بہت سے انسانوں کے اس رویئے کا سبب بنتا ہے جس میں وہ اپنی برادری کے مفادات کے تحفظ کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

لیکن شوئبلے کے بقول مذاہب ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتے ہیں اور ایسا آج کی دنیا میں صرف تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں ہی دیکھنے میں نہیں آتا بلکہ اس کی بہت متنوع مثالیں جرمنی جیسے معاشروں میں بھی ملتی ہیں۔

’’ آئندہ عشروں میں ایک اہم ترین ذمہ داری یہ ہو گی کہ مختلف مذاہب کے پیرو کار، ایک دوسرے کے ساتھ پر امن بقائے باہمی کی سوچ پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے مذاہب کے لئے احترام کی سوچ کو رواج دیں، برداشت کا مظاہرہ کریں اور مکالمت کا راستہ اپنائیں، تاکہ ایک دوسرے پر شک وشبے اور بداعتمادی کی اس غلط سوچ کا خاتمہ کیا جاسکے جو اب عام ہو چکی ہے۔‘‘

قاہرہ یونیورسٹی میں تقریباﹰ اسی طرح کے الفاظ ابھی محض ڈھائی ہفتہ قبل امریکی صدر باراک اوباما نے بھی کہے تھے مگر دونوں شخصیات کی تقریروں میں فرق یہ تھا کہ صدر اوباما کی تقریر میں اگر خارجہ سیاسی پہلو پر زور دیا گیا تھا تو جرمن وزیر داخلہ نے اپنے خطاب میں اسی بات کی داخلہ سیاسی سطح پر وضاحت کی۔

اس حوالے سے وولف گانگ شوئبلے نے جرمنی میں عیسائی عقیدے والی مقامی اکثریت اور اقلیتی آبادی سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے مابین پرامن بقائے باہمی اور ریاستی قانون کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کا جو تصور پیش کیا، اس میں جرمنی میں سرکاری سکولوں میں اسلامیات کی تعلیم کا منصوبہ بھی شامل تھا، اسلامی علوم کے اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کا پروگرام بھی جنہیں یہ تعلیم جرمن زبان میں دینا ہو گی اور یہ بھی کہ مستقبل میں جرمنی میں مذہبی رہنماؤں کے فرائض انجام دینے والی شخصیات کی بڑے تسلی بخش انداز میں تعلیم تربیت کا اہتمام جرمن یونیورسٹیوں میں کیا جائے گا۔

وولف گانگ شوئبلے نے جرمنی میں مقیم قریب تین ملین مسلمانوں کے لئے مساوی حقوق اور ہر طرح کی مذہبی آزادی کی حمایت کرتے ہوئے کہا:’’انضمام کا عمل اس امر کا متقاضی ہے کہ جرمنی میں رہنے والے مسلمان جرمن معاشرے کا حصہ بننے پر بھی آمادہ ہوں اور انہیں اکثریتی آبادی کی عملی مدد بھی حاصل ہو۔ جرمنی میں مقیم مسلمانوں کو جرمن معاشرے کا، لازمی طور پر برابر کے حقوق کا حامل حصہ ہونا چاہئے، اور ہر کسی کو یہ حقیقت تسلیم کرتے ہوئے اس کا احترام بھی کرنا ہوگا۔‘‘

رپورٹ : مقبول ملک

ادارت : امجد علی