1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن نوجوان لڑکے نے فائرنگ مزے کے لئے کی: یرغمالی ڈرائیور

عاطف بلوچ19 مارچ 2009

گزشتہ ہفتے ٹم کےکے ہاتھوں یرغمالی بنے والے ڈرائیور نے آخر کار اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا ہے کہ ٹم نے اسے بتایا تھا کہ اس نے فائرنگ مزے کے لئے کی اور وہ فائرنگ کے لئے ایک اور اسکول ڈھونڈنا چاہتا تھا۔

https://p.dw.com/p/HF9y
اسکول میں فائرنگ کے واقعہ کے بعد خوف اور غم کا شکار طالب علمتصویر: AP

سترہ سالہ جرمن لڑکے نے گزشتہ ہفتے ایک اسکول میں فائرنگ کرنے کے بعد اگور وولف نامی کار ڈارئیور کو یرغمالی بنا کر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تھی۔ اکتالیس سالہ وولف نے ایک جرمن میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا ہے کہ جب اس نے لڑکے سے پوچھا کہ وہ یہ کیوں کر رہا ہے تو ٹم نامی اس لڑکے نے جواب دیا کہ صرف مزے کے لئے "Because it is fun Because I find it fun" ۔ اس دوران ٹم نے وولف سے کہا کہ کیا وہ ایک اور اسکول ڈھونڈ سکتے ہیں۔

اس سے قبل ٹم نےجنوبی جرمن علاقے Winnenden میں البرٹ ولا نامی اسکینڈری اسکول میں فائرنگ کر کے آٹھ لڑکیوں، ایک لڑکے اور تین اساتذہ کو قتل کیا تھا۔

Winnenden Amoklauf Ursual von der Leyen Trauer Symbolbild
جرمن وزیر برائے امور گھرانہ Ursula von der Leyen نے کہا کہ نوجوانوں کو نفسیاتی مدد دینے کے لئے انٹر نیٹ پر خصوصی ہاٹ لائن قائم کی جائےتصویر: picture alliance/dpa / AP / DW-Fotomontage

ٹم نے وولف کو بتایا کہ اس نے اپنے سابقہ اسکول میں فائرنگ کر کے پندرہ افراد کو ہلاک کر دیا ہے لیکن ابھی تک آج میرا کام مکمل نہیں ہوا ہے۔ اس بیان کے بعد ٹم نے فائرنگ کر کے تین مزید افراد کو قتل کیا۔ ٹم نے ایک شخص کو اُس نفسیاتی سینٹر کے قریب گولی مار کر ہلاک کیا جہاں اسے نفیساتی تھراپی دی جا رہی تھی۔ بعد ازاں پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں اس نے خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی۔

وولف نے بتایا کہ وہ ٹم کے ساتھ تقریبا دو گھنتوں تک بطور یرغمال رہا اور اس دوران اس نے سوچا کی وہ گاڑی چھوڑ کر بھاگ جائے لیکن اس نے ایسا کرنے کا اراداہ ترک کر دیا کیونکہ وولف کو خدشہ تھا کہ ٹم مزید لوگوں کو ہلاک کر سکتا ہے۔

وولف نے بتایا کہ وہ گاڑی میں بیٹھا اپنی اہلیہ کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک ایک لڑکے نے گاڑی کی پچھلی سیٹ کر بیٹھتے ہوئے بندوق کے زور پر اسے گاڑی بھگانےکا حکم دیا۔

وولف نے بتایا کہ ایک سگنل پر جب گاڑی کھڑی تھی تو اس نے سوچا کہ وہ اتر کر بھاگ جائے لیکن اس نے دیکھا کہ وہاں کافی رش تھا اور لوگ اپنے کاموں پر جا رہے تھے اور قریب ہی کچھ بچے بھی تھے اور ایک خاتون بچہ گاڑی میں بچے لئے جا رہی تھی۔ یہ دیکھتے ہوئے وولف نے وہاں سے بھاگنے کا اراداہ ترک کیا کیونکہ اس خدشہ تھا کہ اس صورت میں ٹم وہاں فائرنگ سے مزید ہلاکتوں کا سبب بن سکتا ہے۔

بقول وولف کے آخر کار ایک قدرے سنسنان جگہ پر وہ گاڑی کو دانستہ طور پر ٹکڑا کر اور گاڑی کی چاپی لیکر وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔

Delegierte des baden wuerttembergischen Landtags während der Gedenkminute
منگل کے دن جرمن صوبے باڈِن وُرٹیم بیرگ میں فائرنگ کے اس وقعہ پر علامتی طور پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔تصویر: AP

اس اندھادھند فائرنگ کے واقعہ کو ایک ہفتہ گز چکا ہے لیکن ابھی تک Winnenden کا تمام علاقہ ایک خوف اور سوگ میں ہے۔ پولیس کے مطابق ٹم نفسیاتی الجھنوں کا شکار تھا اور اس نے بندوق اپنے والد کی خواب گاہ سے چوری کی تھی۔

اس حوالے سے جرمن پارلیمان نے ایک بحث میں مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کےلئے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ پارلیمان میں زیادہ تر ممبران نے زور دیا کہ بچوں کو اخلاقی اقدار کی منتقلی میں والدین کا کردار ناگزیر ہوتا ہے۔ فیملی امور کی خاتون وزیر نے تجویز دی کہ تنازعات کا شکار نوجوان لڑکوں اور بچوں کی نفیساتی مدد کے لئے انٹر نیٹ پرایک خصوصی ہاٹ لائن شروع کی جائے۔

منگل کے دن گزشتہ روز جرمن صوبے باڈِن وُرٹیم بیرگ میں فائرنگ کے اس وقعہ پر علامتی طور پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ جنوب مغربی صوبے کی پارلیمنٹ اور اسکولوں میں یہ خاموشی مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے اختیار کی گئی۔ صوبائی سربراہ گوئنٹر اوٹنگر Günther Oettinger نے اس موقع پر کہا کہ حکومتی حفاظتی اقدامات کے باوجود اس طرح کے حملوں سے بچنے کی حتمی یقین دہانی نہیں ہوسکتی۔گزشتہ روز جرمن صوبے باڈِن وُرٹیم بیرگ میں فائرنگ کے اس وقعہ پر علامتی طور پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ جنوب مغربی صوبے کی پارلیمنٹ اور اسکولوں میں یہ خاموشی مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے اختیار کی گئی۔ صوبائی سربراہ گوئنٹر اوٹنگر Günther Oettinger نے اس موقع پر کہا کہ حکومتی حفاظتی اقدامات کے باوجود اس طرح کے حملوں سے بچنے کی حتمی یقین دہانی نہیں ہوسکتی۔