جرمن فوج میں دائیں بازو کے مشتبہ انتہا پسندوں کی تلاش
9 اپریل 2017جرمن فوج میں نگرانی کے خفیہ ادارے ’ایم اے ڈی‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ان 275 میں سے 143 فوجی وہ ہیں، جو 2016ء سے مشکوک ہیں جب کہ اس فہرست میں 53 نئے فوجیوں کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ باقی بچنے والے 79 اہلکاروں پر کئی برسوں سے نگاہ رکھی جا رہی ہے۔
دفاع کے شعبے سے تعلق رکھنے والے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے کمشنر ہنس پیٹر بارٹیلس نے اس تناظر میں کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ایسا پہلے بھی دیکھا گیا ہے کہ فوج میں دائیں بازو کے عناصر پر شک ظاہر کیا گیا۔ اس سے قبل بھی جرمن فوج میں انتہاپسندی، سامیت دشمنی اور نسل پرستانہ واقعات کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ جرمن فوج کی دستاویزات سے واضح ہوا ہے کہ کم از کم گیارہ افراد کو ایسے الزامات کی وجہ سے فوج سے نکالا بھی گیا ہے جبکہ کچھ واقعات میں فوجیوں پر جرمانے بھی عائدکیے گئے ہیں۔
کچھ رپورٹوں کے مطابق فوجیوں کی جانب سے انٹرنیٹ پر نسل پرستانہ بیانات پر بھی سنجیدہ کارروائی کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ایک واقعے میں ایک فوجی نے ایک پناہ گزین پر حملے کرنے سے قبل اس سے پوچھا تھا کہ وہ مسلمان ہے یا عیسائی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان مشکوک فوجیوں میں سے کئی ایک کی اسلحہ بارود تک بھی رسائی ہے۔
ہنس پیٹر بارٹیلس کے مطابق دائیں بازو کی انتہا پسندی ایک ایسا موضوع ہے، جس پر جرمن فوج کو سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے، ’’ اگر اس طرح کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو ذمہ داروں کو فوری اور نتیجہ خیز ردعمل ظاہر کرنا ہو گا۔‘‘ ان کے بقول یہ ضروری ہے کہ اس طرح کے کسی بھی واقعے کو نظر انداز نہ کیا جائے۔
بائیں بازو کی جماعت ڈی لنکے کی اولا جیلپکے کہتی ہیں کہ فوج میں اگر کوئی خود کو نازی آمر ہٹلر کا مداح ظاہر کرے اسے فوری طور پر فوج سے نکال دیا جائے۔