جرمن طبی ماہرين: سوائن فلو کا ٹيکہ بہترين حفاظتی تدبير
4 جنوری 2011جرمنی ميں سوائن فلو کی دونوں اموات صوبے لوئر سیکسنی کے شہر گيوٹنگن کے يونيورسٹی ہسپتال ميں ہوئی ہيں۔ لوئر سیکسنی کی سماجی بہبود کی وزير آئيگُل اويزکان نے ان دونوں اموات پر صدمے کا اظہار کيا ہے۔ اُنہوں نے تين سالہ بچی اور 51 سالہ مرد کی موت پر اُن کے اہل خانہ سے تعزيت کا اظہار بھی کيا۔ اويزکان نے کہا کہ سوائن فلو سے بد حواس ہوجانے کی ضرورت تو نہيں ہے، ليکن اس سے محتاط رہنا اشد ضروری ہے:
’’ ان دونوں المناک اموات سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ انفلوئنزا حقيقتاً ايک دشوار شکل اختيار کر سکتا ہے۔اگرچہ سراسيمگی غير ضروری ہوگی ليکن ہم يہ واضح طور پر ديکھ رہے ہيں کہ سوائن فلو سے حفاظت کا ٹيکہ اس متعدی مرض سے بچنے کا بہترين طريقہ ہے۔ ‘‘
شہر گيوٹنگن کے يونيورسٹی ہسپتال ميں وفات پانے والے دونوں مريضوں کے بارے ميں يہ نہيں معلوم ہو سکا ہے کہ انہيں يہ مرض کس طرح اور کہاں لگا تھا۔ صرف يہ معلوم ہے کہ 51 سالہ فرد جس کی موت پير کی صبح کو واقع ہوئی، اس سے پہلے ايک اور مرض ميں بھی مبتلا تھا۔ ليکن سوائن فلو سے مرنے والی تين سالہ بچی اس سے پہلے مکمل طور پر صحت مند تھی۔ صوبے لوئر سیکسنی کے محکمہء صحت کے سربراہ ماتھياس پيوٹس نے بھی خوف اور بدحواسی سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کا سوائن فلو کی نگرانی کا نظام صحيح طرح سے کام کررہا ہے ليکن اس کا امکان ہميشہ ہی موجود رہتا ہے کہ اس قسم کا مرض مہلک ثابت ہو۔ اُن کے بقول ’’ ہم نے انفلوئنزا کے ہر موسم ميں يہی ديکھا ہے کہ اموات ہوئی ہيں۔ ان کا شکار زيادہ تر وہ لوگ ہوتے ہيں جنہيں کوئی بنيادی قسم کی بيماری ہوتی ہے۔ المناک بات يہ ہے کہ ہم مرنے والی تين سالہ بچی کے بارے ميں فی الوقت يہ جانتے ہيں کہ وہ کسی قسم کی بنيادی بيماری ميں مبتلا نہيں تھی۔ ليکن انفلوئنزا کی شدت کا تو ويسے ہی اندازہ نہيں لگايا جا سکتا ہے۔‘‘لوئر سیکسنی کے محکمہء صحت نے اس موسم سرما ميں انفلوئنزا کے جن کيسز کا اندراج کيا ہے، اُن ميں سے 75 فيصد سوائن فلو کے کيسز ہيں۔ سن 2009۔ 2010 ميں نزلے زکام کی لہر ميں صرف صوبے لوئر سیکسنی ہی ميں سوائن فلو کے ہاتھوں 27 افراد مر گئے تھے۔ پورے جرمنی ميں اس فلو کی وجہ سے 350 اموات ہوئيں تھيں۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: کشور مصطفیٰ