1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن صدر جنوبی کوریا میں

عدنان اسحاق11 اکتوبر 2015

جرمن صدر یوآخم گاؤک اپنے پہلے سرکاری دورے پرجنوبی کوریا پہنچ چکے ہیں۔ یہ دورہ ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب ابھی حال میں جرمنی نے اپنے اتحاد کی پچیسویں سالگرہ منائی ہے جب کہ کوریا کو منقسم ہوئے ستر برس پورے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GmQT
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm

جرمن صدر یوآخم گاؤک اپنے اس دورے میں خطے میں امن کے لیے جنوبی کوریائی کوششوں میں تعاون کی پیش کش کے ساتھ وہ کوریائی عوام کو اِس امید کا پیغام بھی دیں گے کہ جنوبی اور شمالی کوریا کا انضمام ممکن ہے۔ صدارتی دفتر کے مطابق جنوبی کوریا مشرقی ایشیا میں جرمنی کا ایک اہم ساتھی ہے۔ اس دورے کے دوران جرمن صدر اپنی جنوبی کوریائی ہم منصب پارک گُن یے سے بھی ملاقات کریں گے۔

پیر کے روز جنوبی کوریائی صدر باقاعدہ طور پر بھرپور فوجی اعزاز کے ساتھ اپنے مہمان کو خوش آمدید کہیں گی۔ ذرائع کے مطابق گاؤک بدھ کے روز جنوبی اور شمالی کوریا کے مابین غیر فوجی زون دیکھنے کےبعد منگولیا کے لیے روانہ ہو جائیں گے، جہاں وہ جمعے تک قیام کریں گے۔

Joachim Gauck Daniela Schadt Südkorea Besuch Hans-Alexander Kneider
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Hee-Chul

اس دوران گاؤک کے ہمراہ ان کی ساتھی ڈانیئیلا شاڈٹ اور متوسط درجے کے کاروباری اداروں کے نمائندے اور اقتصادی شعبے کے ماہرین بھی ہیں۔

آج اتوار کو سیئول پہنچنے کے بعد جرمن صدر ایک قدیمی شاہی محل کو دیکھنے گئے اور بعد میں انہوں نے چائے پی، جو اس ایشیائی ملک کی ثقافت ہے۔ یہ ان کا اس خطے کا پہلا دورہ ہے۔ اس دوران جہاں اقتصادی، ثقافتی اور تحقیق کے شعبے میں روابط کو فروغ دینے کی بات ہو گی وہیں اس علامتی دورے سے شمالی کوریا کو دوبارہ سے اتحاد کے حوالے سے ایک اشارہ بھی دیا جائے گا۔

گاؤک جنوبی کوریائی پارلیمان سے بھی خطاب کریں گے۔ جنوبی کوریا کی اقتصادیات سست روی کا شکار ہے اور اس تناظر میں گاؤک ’سائنس اور جدت‘ کے عنوان سے سیئول میں جرمنی اور کوریا کے مابین ایک اجلاس کا بھی افتتاح کریں گے۔ جرمنی جنوبی کوریا کا ایک اہم تجارتی ساتھی ہے جب کہ جرمن کمپنیوں کی شکایت ہے کہ اس ملک میں کاروبار کے حوالے سے قوانین اور ضابطے بہت تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں۔

جرمنی کے انضمام کے پچیسویں سالگرہ کے موقع پرجرمن صدر یوآخم گاؤک کا ستر سال سے منقسم جزیرہ نما کوریا کا یہ ایک علامتی دورہ ہونا چاہیے لیکن حقیقتاً اس میں کاروبار مفادات کو ہی فوقیت دینے کے امکانات زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔