1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن سیاستدان نسل پرستی کو فروغ دینے سے خبردار رہیں، ترکی

محمد علی خان، نیوز ایجنسی
4 ستمبر 2017

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے جرمن سیاستدانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عوامیت پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔ ترکی نے جرمن چانسلر کی طرف سے انقرہ حکومت پر کی جانے والی تنقید کو بھی مسترد کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2jKAu
Türkei Istanbul Rede Erdogan
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

جرمنی میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے پہلے گزشتہ روز چانسلر شپ کے امیدوار مارٹن شُلس اور انگیلا میرکل کے مابین ٹیلی وژن مباحثہ ہوا، جس میں ترکی کو بھی موضوع بحث بنایا گیا۔ اس پر ترک حکام نے سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں جرمن سیاستدانوں کے بیانات پر تنقید کی گئی ہے۔

ترک صدر کے ترجمان ابراہیم قالن نے پیر کو اپنے ٹوئٹر میں کہا کہ جرمن چانسلر میرکل اور شُلس اپنی بحث میں ترکی اور صدر رجب طیب ایردوآن پر تنقید کرتے رہے، جو اصل میں لوگوں کا دھیان زیادہ ضروری مسائل سے ہٹانے کی ایک کوشش تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جرمنی کا اصل مسئلہ نسل پرستی کی وجہ سے غیر ملکیوں کے ساتھ کیا جانے والا امتیازی سلوک ہے۔

ایردوآن کی قیادت میں ترکی یورپی یونین میں؟ ’کبھی بھی نہیں‘

انہوں نے خبردار کرتے ہوئے مزید کہا کہ ترکی کے ساتھ جرمن سیاستدانوں کا امتیازی رویہ جرمن سیاست میں نسل پرستی کو مزید فروغ دے سکتا ہے۔

اتوار کو ہونے والے مباحثے میں مارٹن شُلس کا کہنا تھا کہ وہ رجب طیب کی آمریت پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے حوالے سے جاری مذاکرات ختم کرنے کے حق میں ہیں جبکہ انگیلا میرکل نے کہا کہ وہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے حوالے سے پہلے ہی اپنے شبہات کا اظہار کر چکی ہیں۔ جرمن چانسلر کا مزید کہنا تھا کہ ’ترکی تیزی کے ساتھ جمہوری طرز حکومت سے دور ہوتا جا رہا ہے‘۔

 جرمنی کی قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یُو) سے تعلق رکھنے والی انگیلا میرکل مسلسل چوتھی مرتبہ چانسلر بننے کے لیے امیدوار ہیں۔ ان کے مقابلے میں مارٹن شُلس ہیں، جن کا تعلق بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) سے ہے۔ اس ٹی وی مباحثے کے دوران ملک میں مہاجرین، برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی جیسے موضوعات پر بھی بات چیت کی گئی۔