1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن جہاز قزاقوں سے آزاد کر لیا گیا

رپورٹ: عدنان اسحاق، ادارت: امجد علی4 اگست 2009

یورپی مشن اٹالانٹا کے ترجمان نے کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں بتایا کہ بحری جہاز کو آزاد کرانے کے لئے تقریباً دو ملین یورو کی رقم ادا کی گئی ہے

https://p.dw.com/p/J3Xa
تصویر: AP

جرمن مال بردار بحری جہاز ہنزا اسٹاوانگر کو قزاقوں کے قبضے سے آزاد کرا لیا گیا ہے۔ اس جہاز کو چارماہ قبل کینیا اور جمہوریہ سیشل کے درمیان اغوا کیا گیا تھا۔ جہاز پر موجود چوبیس رُکنی عملے میں سے پانچ کا تعلق جرمنی، تین کا روس، 14 کا فلپائن جبکہ دوکا یوکرائن سے تھا۔

Somalische Piraten in Bassaso
صومالی قزّاق آئے دن غیر ملکی جہازوں کو اغوا کرتے رہتے ہیںتصویر: AP

قزاقوں کے خلاف یورپی مشن اٹالانٹا کے ترجمان نے کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں بتایا کہ بحری جہاز کو آزاد کرانے کے لئے تقریباً دو ملین یورو کی رقم ادا کی گئی ہے۔ جرمنی میں بحری جہازوں کے کپتانوں اور افسران کی تنظیم سے تعلق رکھنے والے کرسٹوف ونڈ نے چار ماہ کے مشکل مذاکرات کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ چار ماہ کا یہ عرصہ انتہائی مشکل تھا اور اب اس خبر نے سب پر سے دباؤ ختم کر دیا ہے۔

جہاز کے عملے نے 121 دن قزاقوں کے قبضے میں گزارے۔ جہاز کےفرسٹ آفیسر فریڈرک نے اپنے والد کو ٹیلیفون پر بتایا کہ اس دوران انہیں مناسب خوراک نہیں دی گئی اور بحری قزاق ہر لمحے پورے عملے کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیتےرہتے تھے۔ اسے نے مزید بتایا کہ قزاق آنکھوں پر پٹی باندھ کر قریب ہی فائرنگ کرتے تھے۔

ہنزا اسٹاونگر کی بازیابی کے لئے کی جانے والی کوششوں کے دوران جرمن حکومت کئی مرحلوں پر بے بس نظر آئی۔ سب سے پہلے مسلح کارروائی کے ذریعے عملےکو آزاد کرانے کا منصوبہ بنایا گیا لیکن قزاقوں نے جرمن جنگی جہاز کو دیکھ لیا اور عملے کو جان سے مار ڈالنے کی دھمکی دی۔ اِس کے بعد خصوصی دستے افریقہ روانہ کرنےکا منصوبہ بنایا گیا لیکن اس پر بھی کسی وجہ سے عمل درآمد نہیں کیاگیا۔ ساتھ ہی اس حوالے سے جہاز کی کمپنی ریڈیرائی لیون ہارڈ اور بلومن برگ کی کوششوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ مغوی عملے کے اہل خانہ نے کمپنی کے سربراہ پر الزام عائد کیا کہ وہ اس خطرناک صورتحال میں بھی عملے کی جان بچانے سے زیادہ تاوان کی رقم کم کرانے میں دلچسپی لے رہے تھے۔ جرمنی میں کپتانوں اور افسران کی تنظیم کے کرسٹوف ونڈ نےبھی اس پوری کارروائی کے دوران کئی خامیوں کی تصدیق کی۔

صومالیہ کے سمندروں میں بین الاقومی دستوں کی موجودگی کے باوجود بحری قزاقی کے واقعات پر قابو پایا نہیں جا رہا۔ ماہرین کے مطابق اگلے چند ہفتے اس حوالے سے خطرناک ثابت ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مون سون کے خاتمے کے بعد سمندر کی طغیانی میں کمی آئے گی، جس سے قزاقوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔