جرمن بحری دَستوں کی تعیناتی کے سلسلے میں لبنان حکومت کا تازہ اعلان
5 ستمبر 2006ور کیا جا سکے ۔
بیروت کے سرکاری حلقوں کے مطابق پیر کی شام کو کئے جانے والے فیصلے میں لبنان کی طرف سے جو چند تحفظات پائے جاتے ہیں، اُن میں مثلاً یہ ہے کہ جرمن بحری دستوں کی آمد سے قبل اسرائیل کی طرف سے لبنان کی بحری اور فضائی ناکہ بندی ختم ہونی چاہیے۔ دوسری جانب اسرائیل کا کہنا یہ ہے کہ وہ یہ ناکہ بندی صرف اس وقت ختم کرے گا جب بین الاقوامی جنگی جہاز لبنانی ساحلوں پر اپنا فریضہ ادا کرنے کے لئے پہنچ چکے ہوں گے۔
جہاں تک جرمنی کا تعلق ہے، برلن حکومت کی جانب سے آئندہ جمعے کے روز تک بھی بحری دستوں کی روانگی کا حکم دئے جانے کی صورت میں اِن دَستوں کو لبنان پہنچنے میں مزید 3 ہفتے لگ جائیں گے۔ لبنانی کابینہ کے لئے ایک اور نزاعی مسئلہ یہ تھا کہ جرمن دستوں کی نگرانی کا دائرہ کتنے رقبے پر پھیلا ہو گا۔
اب یوں سوچا گیا ہے کہ لبنان کے بحری جہازوں کو ساحل کے سامنے 9,6 کلو میٹر چوڑی پٹی پر خود گشت کرنی چاہیے، باقی ماندہ سمندری علاقے میں جرمن بحریہ اپنے فرائض انجام دے سکتی ہے۔
اس طرح یہ بات واضح ہو جائے گی کہ لبنان اپنے ساحلوں کی نگرانی خود کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ لبنانی پارلیمان کے ایک رکن نے بتایا کہ اگر جرمن بحری دستوں کو اس تمام تر سمندری علاقے کا نگران بنا دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نکل سکتا ہے کہ جرمنی اکیلا لبنان کی بحری سرحدوں کے تحفظ کا ذمہ دار ہو گا۔
آیا جرمن حکومت اس طریقہء کار پر رضامند ہو جائے گی، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ 10 کلو میٹر چوڑے زون میں جرمن بحری جہازوں کے داخل نہ ہونے کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ حزب اللہ تک پہنچنے والے ہتھیاروں کی ممکنہ اسمگلنگ کو نہیں روک سکیں گے۔ پھر مثلاً شام کے جہاز بلا روک ٹوک لبنانی بندرگاہوں تک پہنچ سکتے ہیں۔