1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن انتخابات، دونوں بڑی جماعتیں کیا کہہ رہی ہیں؟

23 ستمبر 2017

جرمنی میں سیاسی جماعتیں انتخابی مہم کی میراتھن دوڑ میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔ ان جماعتوں کا ہدف کل اتوار کو زیادہ سے زیادہ ووٹ لینا ہے۔

https://p.dw.com/p/2kZTx
Berlin, Bundeskanzlerin Angela Merkel im Wahlkampf
تصویر: Reuters/F.Bensch

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا لب و لہجہ جذباتی ہوتا جا رہا ہے۔ اس دوران میونخ میں کرسچین ڈیموکریٹک یونین ( سی ڈی یو) اور اس کی ہم خیال جماعت کرسچین سوشل یونین ( سی ایس یو) کے آخری انتخابی جلسے میں شدید شور شرابے کی وجہ سے رہنماؤں کو عوام سے مخاطب ہونے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران کئی مرتبہ دائیں بازو کی تنظیموں اور بائیں بازو کے ناقدین نے میرکل کے خطاب کے دوران سیٹیاں اور باجے بجاتے ہوئے ان کے خلاف احتجاج کیا۔ میرکل نے اس شور و غل پر کسی خاص رد عمل کا مظاہرہ کیے بغیر کہا، ’’سیٹیاں بجانے اور چیخنے چلانے سے یقینی طور پر جرمنی کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا‘‘۔

اسی طرح سی ایس یو کے سربراہ اور باویریا کے وزیر اعلی ہورسٹ ذیہوفر نے کہا، ’’یہ جمہوریت کے حامیوں کا اجلاس ہے، دائیں اور بائیں بازو کے شور کرنے والوں کا نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس جلسے میں آٹھ ہزار لوگ شریک ہیں اور چند سو خلل ڈال رہے ہیں۔‘‘

 

سوشل ڈیموکریٹک پارٹی

سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) نے بھی برلن میں جمعے کی شب ایک اختتامی جلسے کیا اور اس دوران جنڈارمن مارکیٹ پر ہر جانب سرخ رنگ دکھائی دے رہا تھا۔ اس مارکیٹ کے مرکز میں نصب ایک بڑے سے بورڈ پر تحریر تھا، ’’مزید انصاف کا وقت‘‘۔  اس موقع پر ایس پی ڈی کے چانسلر شپ کے امیدوار مارٹن شلس نے انتخابات میں بھرپور قوت کے ساتھ حصہ لینے کا کہا، ’’ اتوار کے روز کی ووٹنگ کوئی عام رائے شماری نہیں ہے۔ اس کے ذریعے ایک ایسی حکومت کا راستہ روکنا ہے، جو سماجی سطح پر سرد موقف اختیار کیے ہوئے ہے اور جس کے لیے شہریوں کی کوئی اہمیت نہیں۔‘‘ شلس نے مسلم اور مہاجرین مخالف جماعت (اے ایف ڈی) کے بارے میں کہا، ’’ اگر ایف ڈی پی پارلیمان تک پہنچ گئی تو 1945ء کے بعد پہلی مرتبہ وہاں جمہوریت کی قبر کھودنے کی آوازیں بلند ہوں گی۔ ایس پی ڈی جمہوریت کا دفاع کرے گی اور اے ایف ڈی اس کی دشمن ہے۔‘‘

 

 

جرمنی میں عام انتخابات، کس کا پلڑی بھاری؟