1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن اخبارات کی نظر میں اس ہفتے کا جنوبی ایشیا

Ana Lehmann /شہاب احمد صدیقی3 اپریل 2009

جنوبی ايشياء کے حالات وواقعات بارے ميں جرمن زبان کے اخبارات کی آراء اور تبصروں پر مشتمل ايک جائزہ ۔

https://p.dw.com/p/HPs3
تصویر: AP

پچھلے ہفتے جرمن زبان کے اخبارات نے لاہور ميں دہشت گردانہ حملے کے بارے ميں تفصيلی تبصرے کئے۔ ان ميں شدت پسند گروپوں کے حملوں ميں اضافے پر تشويش ظاہر کی گئ ہے۔ اخبار Frankfurter Rundschau لکھتا ہے کہ لاہور ميں پوليس اکيڈمی پر حملہ صورت حال ميں ايک نئی شدت پيدا ہونے کی علامت ہے۔ طاقتور صوبے پنجاب کا دارا لحکومت ملک کا دل سمجھا جاتا ہے اور وہ لمبے عرصے تک نسبتا محفوظ تھا ۔ اگرچہ پنجاب ميں دہشت گرد گروہ موجود ہيں، ليکن طالبان کے گڑھ ملک کے شمال مغرب ميں پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے ميں ہيں۔ لاہور کی پوليس اکيڈمی پر حملے سے يہ تشويش پيدا ہوتی ہے کہ عسکريت پسند، دہشت گردی کو پاکستان ميں طاقت کے مرکز پنجاب تک لانے کی کوششوں ميں اضافہ کررہے ہيں۔

اخبار Neue Züricher Zeitung لکھتا ہے کہ تازہ ترين حملے سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک ميں مختلف ملکی اور غير ملکی دہشت گرد گروپ اسلا م آباد کے لئے حقيقتا کتنے خطرناک بن چکے ہيں ۔

گذشتہ مہينوں کےدوران پاکستان ميں بار بار خونريز خودکش اور مسلح حملے ہوئے ہيں ۔ ان ميں سے اکثر شمال مغربی سرحدی علاقوں ميں کئے گئے ليکن حملہ آور ملک کے دوسرے حصوں کو بھی مسلسل زيادہ نشانہ بنا رہے ہيں ۔

اخبار Tagesspiegel تحرير کرتا ہے کہ حملے کے وقت کا انتخاب سوچ سمجھ کر کيا گيا تھا اور يہ کوئ اتفاق نہيں تھا ۔ يہ ايک اعلان جنگ معلوم ہوتا ہے ۔ پاکستان کی سياسی اور فوجی قيادت اور امريکی صدر اوباما کے خلاف۔ صدر اوباما نے تقريبا دس روز قبل پاکستان اور افغانستان کے لئے اپنی حکمت عملی پيش کی جس ميں اسلا م آباد سے مطالبہ کيا گيا ہے کہ وہ ہر قسم کی اگر مگر کے بغير شدت پسندوں کے ساتھ جنگ کرے۔ اس کے علاوہ باراک اوباما نے پاکستانی طالبان کے قائد بيت ا للہ محسود کے سر کی قيمت پانچ ملين ڈالر مقرر کرنے کا اعلان کيا۔

لندن ميں بيس کے گروپ کی سبربراہی کانفرنس ميں صنعتی طور پر ترقی يافتہ ملکوں کے علاوہ دس ابھرتے ہوئے صنعتی ملکوں کو بھی شريک کيا گيا ۔ بھارتی ماہر اقتصاديات جاياتی گھوش نے اخبار Tageszeitung کو دئے گئے انٹز ويو ميں کہا کہ وہ G20 کو بھی G7 يا G8 ہی کی طرح سے ناجائز سمجھتی ہيں ۔ انہوں نے کہا کہ عالمی مالياتی ڈھانچے اور مالياتی منڈيوں کے ضوابط کے بارے ميں مسائل کو اقوام متحدہ کے دائرے ميں زير بحث لانا چاہئے اور صرف چند اور ملکوں کو مدعو کرنے سے نظام جمہوری نہيں بن جائے گا ۔ 192 ملکوں کو اس معاملے سے عليحدہ رکھ کر يہ نہيں سمجھا جاسکتا کہ جيسے ان کا وجود ہی نہ ہو۔ يہ ، غير منصفانہ اور غير حقيقت پسندانہ ہے ۔ انہوں نے يہ بھی کہا کہ ہم ايک دوسرے پر اپنے اندازے سے زيادہ انحصار کرتے ہيں ۔

اخبار Frankfurter Alllgemeine Zeitung تحرير کرتا ہے کہ ايشياء کے ابھرتے ہوئے صنعتی ممالک ، بھارت، چين ، انڈونيشيا اور تھائ لينڈ مغربی صنعتی ملکوں کے روبرو خود اعتمادی کا مظاہرہ کررہے ہيں ليکن انہوں نے اپنا موقف مل جل کر طے نہيں کيا ہے۔ ان کا کوئی متحدہ محاذ نہيں ہے ۔ وہ صرف ايک ايسے مالياتی نظام کی تنقيد پر متفق ہیں جسے، ان کے نقطہء نظر کے مطابق صنعتی ملکوں نے بحران سے دوچار کيا ہے ۔ چين اوربھارت اپنی سخت رياستی ضوابط والی مالياتی منڈيوں کو ناکام مغربی نظام کے متبادل کے طور پرتو پيش کرتے ہيں، ليکن وہ ذمہ داری قبول کرنے سے گريزکررہے ہيں۔