1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن اخبارات میں گزشتہ ہفتے کا جنوبی ایشیا

رپورٹ:شہاب احمد صدیقی، ادارت:مقبول ملک21 ستمبر 2009

جنوبی ايشيا کے حالات وواقعات کے بارے ميں جرمن زبان کے اخبارات و جرائد کی آراء اور تبصرے۔ اِن اخبارات و جرائد میں کئی اہم موضوعات کو منتخب کیا جاتا ہے اور اُن کے حوالے سے جرمن سوچ کو پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/Jl7Q
جرمن اخباراتتصویر: AP

اخبار merkur اپنی آن لائن اشاعت ميں لکھتا ہے کہ سوات وادی ميں پاکستانی فوج کے حملے کے پانچ ماہ بعد سب سے زيادہ مطلوب طالبان کمانڈر شير محمد قصاب کو گرفتار کرليا گيا ہے۔ پاکستانی فوج کے ايک کرنل نے کہا کہ قصاب پر قيد کئے جانے والے پاکستانی فوجيوں کے سر قلم کرنے کا الزام ہے۔

ہفت روزہ spiegel on line تحرير کرتا ہے کہ اسلامی جہاد يونين نامی گروپ کے قائد نجم ا لدين شالولوف کو پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے ميں ايک امريکی ڈرون حملے ميں ہلاک کرديا گيا ہے۔اگرچہ اس کی سرکاری تصديق نہيں ہوئی ہے ليکن امريکی ذرائع کا بھی خيال يہی ہے کہ وہ يقينی طور پر ہلاک ہوچکا ہے ۔ نجم ا لدين کے گروپ نے جرمنی ميں حملوں کا منصوبہ بھی بنايا تھا۔ابتدائی طور پر اسلامی جہاد يونين ازبک گروپ تھا ليکن وہ ايک عرصے سے اپنی سرگرمياں پاکستان منتقل کرچکا ہے۔ اس کے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ روابط ہيں۔

Bildgalerie Nach den Wahlen Presseschau
جرمن اخبارات : ایک اورفائل فوٹوتصویر: AP

بھارت ميں مسلح ماؤنواز باغی رياست اور ذات پات کے نظام کے خلاف لڑرہے ہيں۔ اخبار tageszeitung تحرير کرتا ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے گروپ ماؤ نواز باغيوں اور رياست دونوں پر الزام لگاتے ہيں کہ وہ انسانی حقوق کی شديد خلاف ورزياں کررہے ہيں۔ بھارت ميں غريبوں کی حالت زار اور ذات پات کے نظام کے ذريعے ان کا جواز پيش کرنے کے خلاف آواز اٹھانا يقيناً قابل فہم ہے ليکن عوامی جنگ کے نام سے جو لڑائی جاری ہے وہ بہتر مستقبل کی طرف نہيں لے جاسکتی۔ نہ تو ماؤ نواز باغيوں کے الفاظ اور نہ ہی ان کا عمل کسی قسم کی اميد دلاتے ہيں۔ سری لنکا ميں خانہ جنگی کو ختم ہوئے چار ماہ گذر چکے ہيں۔ بيس سال سے بھی زيادہ عرصے تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد تامل ٹائيگرز مئی ميں سری لنکا کی فوج کے ہاتھوں مکمل شکست کھا چکے ہيں۔ تاہم کولمبو کی حکومت کی طرف سے داخلی سختيوں کو نرم کرنے کے کوئی آثار نظر نہيں آتے۔

اخبار neue zürcher zeitung لکھتا ہے کہ حکومت ان سختيوں کا يہ جواز پيش کرتی تھی کہ تامل ٹائيگرز جيسی دہشت گرد تنظيم کے خلاف جنگ ميں ہر حربہ جائز ہے۔ صدر راجاپاکسے نے اپنی فاتحانہ تقرير ميں ملک ميں قوميتوں کے درميان موجود خليج کو پاٹنے اور سنہالی اکثريت اور تامل اقليت کے درميان عشروں سے جاری تنازعے کے سياسی حل کا وعدہ کيا تھا۔ تاہم حقيقت اس سے مختلف ہے۔ حکومت مجموعی طور پر تاملوں کو مجرم ٹہراتی ہے،تين لاکھ بے گھر افرادکو خراب حالات ميں کيمپوں ميں بند رکھا جارہا ہے اور تنقيد کرنے والے صحافيوں کو حکومتی عتاب کا سامنا ہے۔