1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کی مالیاتی حالت کبھی ایسی نہ تھی

17 مارچ 2010

وفاقی جرمنی کی تاريخ ميں قومی بجٹ کی حالت کبھی اتنی خراب نہيں تھی اوربجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کے لئے کبھی اتنا قرض نہيں لينا پڑا تھا جتنا کہ اس سال کے بجٹ کے لئے لينا پڑا ہے۔

https://p.dw.com/p/MUk0
تصویر: picture-alliance / HB Verlag/Joh

ايک دلچسپ پہلو يہ ہے کہ جرمنی کے فوجی اخراجات کی صورتحال کيا ہے؟ بہر حال جرمنی دنيا کے اُن دس ملکوں ميں شامل ہے جن کے فوجی اخراجات سب سے زيادہ ہيں۔

فوجی سازوسامان خاصا مہنگا ہوتا ہے۔ جرمن حکومت اگلے تين برسوں ميں صرف پُوما نامی ٹينک ہی پر تين ارب يورو سے زيادہ رقم خرچ کرے گی۔ کيونکہ موجودہ ٹينک پرانے ہوچکے ہيں ،اس لئے جديد ٹينکوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ فوجيوں کو بہترين تحفظ دے سکيں، مثال کے طور پر افغانستان کی جنگ ميں۔ اسلحے سازی کی جرمن صنعت کے لئے نئے ٹينکوں کی تياری ايک بہت بڑا ٹھيکہ ہوگا۔

فوجيوں کی حفاظت کو دليل بنا کر موجودہ مالی بحران کے زمانے ميں بھی آسانی سے رقم نکلوائی جاسکتی ہے۔ فوجيوں کو جنگ ميں بھيجنے والی پارليمنٹ اور حکومت پر اُن کی موزوں حفاظت کی ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے۔ جرمنی کی مخلوط حکومت ميں شامل جماعت ايف ڈی پی کے قومی بجٹ کے امور سے متعلق سياستدان کوپے لن نے کہا کہ کہ ہم، اپنے بيرون ملک تعينات فوجيوں کو بہترين سازوسامان مہياف کرنے اور يہ احساس دلانے کے لئے سب کچھ کريں گے کہ پارليمنٹ اُن کے ساتھ ہے۔جرمنی اس وقت غير ممالک ميں نو فوجی کارروائيوں ميں حصہ لے رہا ہے اور اس وجہ سے اس طرح کی سوچ ميں اور اضافہ ہوا ہے۔يہ بات جرمن وزارت دفاع اور اسلحے ساز صنعت کے لئے خوشی کا باعث ہے۔وزير دفاع سُو گُٹن برگ نے کہا:

Jahresrückblick 2007 April Tornados nach Afghanistan
عسکری اخراجات کے حوالے سے جرمنی کا شمار دس بڑے ممالک میں ہوتا ہےتصویر: AP

اس سال ہم فوج پر تقريباً 31 ارب يورو خرچ کررہے ہيں۔ يہ ايک بہت بڑی رقم تو ہے مگر ايک بامقصد سرمايہ کاری بھی ہے۔

اس رقم سے جديد اسلحہ کی خريد،موجودہ سامان کی مرمت ،ضروری اشياء کی فراہمی اور فوج کی تنخواہيں ادا کی جائيں گی۔

تاہم حکومت فوجی شعبے ميں بھی بچت کے امکانات کا جائزہ لے رہی ہے۔ اپوزيشن جماعت ايس پی ڈی ٹورناڈو طياروں کے اُس اسکواڈرن کو غير ضروری سمجھتی ہے جسےضرورت پڑنے پر امريکی ايٹم بموں سے ليس کيا جاسکتا ہے،کيونکہ ان ايٹم بموں کو ہٹانے کے بارے ميں مذاکرات پہلے ہی سے جاری ہيں۔ايس پی ڈی کے دفاعی امور کے ماہر رائنر آرنولڈ کا کہنا ہے کہ غير ممالک ميں جرمن فوجی شموليت ميی بھی کمی کی جاسکتی ہے، مثال کے طور پر قرن افريقہ اور آپريشن اينڈيورنگ فريڈم ميں جرمنی کی شموليت کا خاتمہ ممکن ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اگلے مہينوں کے دوران کوسوو ميں جرمن فوجی سرگرميوں ميں کمی ہو گی اور بوسنيا ہرسيگووينا سے فوج واپس بلائی جاسکے گی۔ليکن افغانستان ميں اگلے دو تين برسوں ميں فوجی سرگرمياں کم ہونے کے بجائے بڑھ جانے کا امکان ہے۔

اپوزيشن کی جماعت دی لنکے جرمنی کی دفاعی پاليسی پر بنيادی اعتراضات کرتی ہے۔ اُس کے مطابق، ٹينکوں اور طياروں پر اربوں کا خرچ بے معنی ہے اور جرمن مسلح افواج کو بيرون ملک فوجی کارروائيوں ميں حصہ نہيں لينا چاہئے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں