1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کی افغانستان پالیسی

25 جنوری 2010

جرمن حکومت طالبان کو افغان معاشرے ميں دوبارہ ضم کرنے کے لئے مجوزہ فنڈ کو بھی مالی مدد دينا چاہتی ہے۔

https://p.dw.com/p/LgWh
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور وزیر خارجہ گیڈو ویسٹرویلےتصویر: AP

جس نے پچھلے عرصے کے دوران جرمن سياستدانوں سے افغانستان ميں جرمن پاليسی کے بارے ميں پوچھا ہوگا،اُسے ايک دوسرے سے مختلف جوابات ملے ہوں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرمن حکومت ابھی تک خود بھی افغانستان سے متعلق کوئی واضح لائحہء عمل تيار نہيں کرسکی ہے۔ جو بات طے شدہ معلوم ہوتی ہے وہ صرف يہ ہے کہ افغانستان کے لئے جرمن ترقياتی امداد کو دگنا کرديا جائے گا۔ اس کے علاوہ جرمن حکومت طالبان کو افغان معاشرے ميں دوبارہ ضم کرنے کے لئے مجوزہ فنڈ کو بھی مالی مدد دينا چاہتی ہے۔ جرمن وزير خارجہ گيڈو ويسٹر ويلے نے کہا کہ اس فنڈ کا مقصدانتہا پسند طالبان کو مدد دينا نہيں بلکہ صرف ايسے افراد کو معاشرے ميں دوبارہ ضم کرنا ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے بس يونہی طالبان سے مل گئے ہيں۔ ويسٹر ويلے کے مطابق ان کی مراد ان لوگوں سے ہے جنہيں مثلاً ديہی علاقوں سے بھرتی کيا جاتا ہے ،اور اس کی وجہ اکثر يہ ہوتی ہے کہ ان افراد کے پاس آمدنی کا کوئی اور ذريعہ نہيں ہوتا۔ ہم افغانستان پاليسی ميں اس نئے آغاز کی کوشش کرنا چاہتے ہيں۔اس لئے ہم لندن ميں ايسے افغانوں کے لئے ايک فنڈ قائم کرنے کا فيصلہ کريں گے جو اقتصادی وجوہات کی بناء پر طالبان کے ساتھ شامل ہوگئے ہيں تاکہ انہيں دوبارہ معاشرے ميں ضم کيا جاسکے۔

Deutsche ISAF Soldaten in Feysabad oestlich von Kundus.
اس وقت افغانستان ميں 4300 جرمن فوجی تعينات ہيں ۔تصویر: AP

جرمن حکومت کے لئے سب سے مشکل سوال يہ ہے کہ کيا اسے افغانستان ميں مزيد جرمن فوجی بھيجنا چاہئيں، اور اگر ہاں تو کتنے۔ سی ايس يو پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزير دفاع گو ٹن برگ مزيد 500 فوجی روانہ کرنا چاہتے ہيں۔ اُن کے برعکس وزير خارجہ ويسٹر ويلے افغانستان ميں جرمن فوجيوں کی تعداد ميں اضافے کی تجويز کو شک کی نظر سے ديکھتے ہيں اور وہ کئی بار يہ کہ چکے ہيں کہ 28 اگست سے لندن ميں شروع ہونے والی عالمی افغانستان کانفرنس ، فوج بڑھانے کی کانفرنس نہيں ہو گی۔ درحقيقت، معاملہ افغا نستان ميں جرمنی کی لڑنے والی فوج ميں اضافے کا ہے ہی نہيں بلکہ يہ کہا جارہا ہے کہ افغان سيکيورٹی فورسز کو تربيت دينے والے جرمن فوجيوں کی تعداد ميں اضافے کی ضرورت ہے۔ اس وقت افغانستان ميں 4300 جرمن فوجی تعينات ہيں جن کی ايک تھوڑی سی تعداد ہی ملک کے شمال ميں افغان فوجيوں کو تربيت دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ جرمن ملٹری پوليس کا 45افراد پر مشتمل عملہ افغان پوليس کو تربيت دے رہا ہے۔ جرمن فوج سے واقف ماہرين، مثلاً فوج کے امور کے حکومتی ذمے دار روبے،افغان پوليس کی تربيت کے لئے مزيد جرمن ملٹری پوليس روانہ کرنے کو قابل عمل نہيں سمجھتے۔ انہوں نے کہا ’اگر ہم واقعی ايسا چاہتے ،تب بھی يہ ممکن نہيں کيونکہ ہمارے پاس اتنی ملٹری پوليس ہی نہيں ہے کہ وہ تربيت دينے والوں کی اس کمی کو پورا کرسکے۔

جرمن حکومت نے پچھلے سال ٹريننگ دينے والے 90افسران افغانستان بھيجے تھے اور اس سال وہ 260 افسران وہاں بھيجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

جرمن چانسلر افغانستان کی نئی پاليسی تيار کرتے وقت اپوزيشن کی سب سے بڑی پارٹی ايس پی ڈی کی حمايت بھی حاصل کرنا چاہتی ہيں ليکن مسئلہ يہ ہے کہ ايس پی ڈی جرمن فوج کو سن 2015 تک افغانستان سے واپس بلانے کا مطالبہ کررہی ہے جبکہ جرمن حکومت اس سلسلے ميں کوئی تاريخ مقرر کرنا نہيں چاہتی۔

رپورٹ : شہاب احمد صدیقی

ادارت : کشور مُصطفیٰ