1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں مہاجرین کے لیے سلائی کڑھائی کا کام

عاطف بلوچ / نیٹلی مؤلر29 مارچ 2016

شامی مہاجر خاتون اِسرا جرمن شہر فرینکفرٹ کی ایک کلاتھ ورکشاپ میں کام کرنے لگی ہے۔ سلائی کڑھائی کی یہ طالبہ نئے خواب سجائے اپنے تباہ حال ملک کو چھوڑ کر جرمنی پہنچی ہے۔

https://p.dw.com/p/1ILFH
Deutschland Frankfurt a.M. Werkstatt für Frauen Flüchtlinge Bild 1
جرمنی میں ملازمت حاصل کرنا اِسرا کے لیے ایک بڑی کامیابی ہےتصویر: DW/N. Müller

اِسرا اُن ایک ملین مہاجرین میں شامل ہے، جو گزشتہ برس جرمنی پہنچے تھے۔ یہ مہاجرین جرمنی پہنچ تو گئے ہیں لیکن ان کو ابھی جرمن معاشرے میں انضمام کے لیے سخت کوشش کرنا ہو گی۔ زبان کا سیکھنا، معاشرتی اقدار کو سمجھنا، تعلیم حاصل کرنا اور ملازمت کی تلاش۔ یہ سبھی چیلنج ان کے سامنے ہیں۔

اِسرا جرمنی آنے سے قبل دمشق میں فیشن ڈیزائنگ کی تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ وہ جرمنی میں اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتی ہے۔ لیکن ابھی اس نے بھی جرمن زبان سکیھنا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ بھرپور کوشش اور لگن سے سب کچھ ممکن ہے۔

اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے اِسرا نے سلائی کڑھائی کا عملی کام سیکھنے کی غرض سے فرینکفرٹ کے ضلع بورنہائم میں واقع ایک ورکشاپ میں داخلہ لے لیا ہے۔ وہ اب وہاں نہ صرف کام سیکھ رہی ہے بلکہ ساتھ ساتھ جرمن زبان بھی سیکھ رہی ہے۔ جرمنی میں ملازمت حاصل کرنا اِسرا کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔

’ٹانکے سے ٹانکا‘

خاتون درزی کلاؤڈیا فرنک اور گرافک ڈیزائنر نِکی فان ایلون سیلبن مہاجرین کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھیں۔ اس لیے انہوں نے "Stitch by Stitch" نامی ایک منصوبہ شروع کیا تاکہ جرمنی آنے والے مہاجرین کو عملی کام سیکھایا جا سکے۔ ان دونوں خواتین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے تحت مہاجرین کو نہ صرف کام سیکھایا جا سکتا ہے بلکہ وہ زبان اور کلچر سے بھی بخوبی واقفیت حاصل کر سکتے ہیں۔

کلاؤڈیا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ ایک سوال تھا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اس بحران میں انگیلا میرکل یا دوسرے لوگ کیا کر رہے ہیں، اس سے ہٹ کر ہم نے سوچنا شروع کیا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔‘‘ ان کا خیال ہے کہ اس منصوبے کے تحت آئندہ چند سالوں میں بہت سے لوگ کام کرنا سیکھ جائیں گے اور وہ اپنا کاروبار شروع کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔‘‘

کلاوڈیا اور نِکی کو البتہ اس منصوبے کو چلانے میں کچھ مشکلات کا سامنا بھی ہے۔ یہ دونوں خواتین ایک عشرے سے بزنس کر رہی ہیں لیکن مہاجرین اور بیوروکریسی سے ان کا سامنا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔ نِکی کے مطابق، ’’سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں بیک وقت فیڈرل ایمپلائمنٹ ایجنسی اور فارن رجسٹریشن آفس کے ساتھ رابطہ کاری کرنا پڑ رہی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ان معاملات کے لیے صرف ایک ہی ایجنسی ہونا چاہیے تاکہ انتظامی مسائل کم سے کم ہوں۔

منافع بھی اہم ہے

شورش زدہ علاقوں سے ہجرت کرنے والے زیادہ تر مہاجرین ذہنی دباؤ کا شکار بھی ہیں۔ انہوں نے تباہی بہت نزدیک سے دیکھی ہے اور تلخ یادیں ابھی تک ان کے ذہنوں میں موجود ہیں۔

Deutschland Frankfurt a.M. Werkstatt für Frauen Flüchtlinge Bild 2
خاتون درزی کلاؤڈیا فرنک (دائیں) اور گرافک ڈیزائنر نِکی فان ایلون سیلبن مہاجرین کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہیںتصویر: DW/N. Müller

نِکی کہتی ہیں کہ انہیں اس حوالے سے علم تھا اور اسی لیے انہوں نے یہ منصوبہ شروع کرنے سے قبل ذہنی صدمات کو کم کرنے والے طبی ماہرین سے بھی رابطہ کیا تھا۔ کلاوڈیا کے مطابق وہ اپنے اس منصوبے کے تحت لوگوں کو کام بھی سیکھانا چاہتے ہیں کہ ان کی تلخ یادوں کو ختم کرنے کی کوشش بھی کرنا چاہتے ہیں۔

اس منصوبے سے مہاجرین کی استعداد کاری میں تو بہتری پیدا ہو گی لیکن ساتھ ہی کوشش ہے کہ یہ پراجیکٹ منافع بخش ثابت ہو۔ اسی لیے کلاؤڈیا اور نِکی مقامی جرمن برانڈز کے ساتھ بھی رابطہ کاری میں ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ابھی تک انہیں اچھا رسپانس مل رہا ہے کیونکہ مقامی برانڈز بھی مہاجرین کی استعداد کاری کی خاطر انہیں کام دے رہے ہیں۔

ابھی تک صرف اِسرا ہی ایک ایسی مہاجر ہے، جو اس منصوبے کے تحت کلاؤڈیا اور نِکی کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ تاہم اس برس کے اختتام تک مزید پانچ مہاجرین کو بھی اس منصوبے میں شامل کر لیا جائے گا۔ کلاؤڈیا کے مطابق اگر یہ منصوبہ کامیاب ثابت ہوا تو اس کو جرمنی کے دوسرے شہروں میں بھی شروع کر دیا جائے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں