1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں مصری خاتون کا قتل، ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

10 جولائی 2009

يکم جولائی کو جرمن شہر Dresden ميں ايک حاملہ مصری خاتون کو چاقو کے وار کر کے ہلاک کر ديا گيا تھا۔ حکام کے بقول 28 سالہ روسی نژاد جرمن قاتل غیر ملکیوں سے جنون کی حد تک نفرت کرتا ہے۔ اس قتل کے اثرات پر ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

https://p.dw.com/p/IlEP
مصری شہری قاہرہ میں جرمن سفارت خانے کے سامنے احتجاج کے دورانتصویر: picture alliance / dpa

جرمنی میں اس قتل کی سخت مذمت کی جارہی ہے اوربہت سے مسلمان جرمن حکومت پر بھی تنقيد کر رہے ہيں کہ اس نے اس وحشيانہ جرم کی مذمت میں بہت دير کردی۔

اس موضوع پر ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار Rainer Sollich لکھتے ہیں:

مصری خاتون کے قتل کے دردناک واقعے کے سلسلے ميں يہ واضح کرنا ضروری ہو گا کہ جرمنی ميں عمومی طور پر مسلمانوں سے نفرت نہيں پائی جاتی۔ عدليہ پر بھی يہ الزام نہيں لگايا جا سکتا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جرائم کی سنجيدگی کے ساتھ تحقيقات نہيں کرتی۔ جرمنی ميں ممتاز سياستدان يا ميڈيا سر کو ڈھانپنے والی مسلم خواتين کو ممکنہ دہشت گرد قرار نہيں ديتے۔ ايسی بہت سی انجمنيں پائی جاتی ہيں جن ميں مسلمان اور غير مسلم باہمی مکالمت اور مفاہمت کے لئے اور ہر قسم کی ناانصافی کے خلاف تعاون کرتے ہيں۔

سياستدانوں پر زيادہ سے زيادہ يہی الزام لگايا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ابھی تک جرمنی ميں مقیم مسلمانوں کے ساتھ مکالمت کے سلسلے ميں کوئی خاص قدم نہيں اٹھايا ہے۔ تاہم اس ملک کو بلا تعصب ديکھنے والا ہر شخص اس امر کی تصديق کرے گا کہ تمام تعصبات، انديشوں اور دائيں بازو کی چھوٹی لیکن انتہا پسند سياسی جماعتوں کے غيرملکيوں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگيز پروپيگنڈے کے باوجود جرمنی میں مسلم دشمنی کی کوئی عام فضا نہيں پائی جاتی۔

تو کيا پھر جرمنی ميں سب کچھ بہترين ہے؟

ايسا بالکل نہيں ہے۔ مصری عوام، ان کے ذرائع ابلاغ اور خصوصاً مقتولہ کے عزيزواقارب کا غم وغصہ بجا ہے۔ جرمن حکومت سے يہ پوچھا جانا چاہئے کہ اس نے اس وحشيانہ جرم کی مذمت ميں اتنی تاخير کيوں کی۔ يہی نہيں بلکہ اس نے یہ مذمت ايک عرب رپورٹر کی طرف سے کی جانے والی درخواست کے بعد کی۔

بہت سے مسلمانوں نے جن ميں جرمنی ميں آباد مسلمان بھی شامل ہيں، اسے لاتعلقی اور ہمدردی کے فقدان کا اظہار سمجھا ہے۔ مصر کے بعض ذرائع ابلاغ نے اسے اپنے ملک کی ایک خاتون کے قتل کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش بھی قرار ديا ہے۔

اس سلسلے ميں جرمن سياست دانوں نے کسی اچھے طرز عمل کا مظاہرہ نہيں کيا۔ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل اور يہوديوں کی مرکزی کونسل دونوں نے شروع ہی ميں اس قتل پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس جرم کی کھل کر مذمت کی تھی۔

اگرچہ يہ کہنا غلط ہوگا کہ جرمنی ميں اسلام فوبيا يا اسلام کا خوف چھايا ہوا ہے ليکن يہ بھی حقيقت ہے کہ رائے عامہ کے بہت سے جائزوں سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ جرمن باشندوں کی اکثريت اسلام اور مسلمانوں سے خوف محسوس کرتی ہے۔ اس لئے يہ ايک حقيقی مسئلہ ہے اور اسے قطعی نظر انداز نہيں کيا جاسکتا۔ اقتصادی بحران اور روزگار کے مواقع ميں کمی کے اس دور ميں طویل المدتی سطح پر يہ سماجی اعتبار سے دھماکہ خيز مواد ثابت ہو سکتا ہے۔

تبصرہ : Rainer Sollich / شہاب احمد صدیقی

ادارت : مقبول ملک