جرمنی میں قدیم نقش و نگاری دریافت
27 جولائی 2011محققین کے مطابق بامبیرگ کے قریب غار میں پتھروں پر ہوئے یہ نقش و نگار قریب دس ہزار سال پرانے ہیں۔ ان نمونوں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ غار جنسی رسومات کے لیے استعمال ہوتے تھے لیکن محققین اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اس غار میں کبھی سورج کی ایک کرن تک نہیں پہنچی۔ آثار قدیمہ کے ایک ماہر سباسٹیان زومر کا کہنا ہے کہ پتھر پر کی گئی یہ کندہ کاری بہت مشکل سے ہی دیکھی جا سکتی ہے، بلکہ اسے دیکھنا تقریباً ناممکن ہے۔
آثار قدیمہ کے محکمے نے یہ خبر عام کرنے سے اس لیے گریز کیا تا کہ سکون کے ساتھ ان نمونوں پر تحقیق کی جا سکے۔ تاہم اخبار دی سائٹ نے اس تاریخی نمونوں کی دریافت کی خبر شائع کر دی، جس کے بعد عوام میں دس سے بارہ ہزار سال پرانے ان نقش و نگار کو دیکھنے کی جستجو پیدا ہو گئی۔
زومر کا کہنا ہے اخبار میں خبر چھپنے سے پہلے ہی قدیم دور کی اس کندہ کاری کے بارے میں افواہیں گردش کر رہی تھیں۔ اس وجہ سے لوگوں نے اس مقام کا رخ کرنا شروع کر دیا تھا، جس کی وجہ سے اس جگہ کو بھی نقصان پہنچا اور کچھ لوگ تو صرف اس وجہ سے وہاں پہنچے کہ شاید انہیں نوادرات مل جائیں اور وہ اسے چرا لیں۔ آثار قدیمہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ یورپ میں اس نوعیت کا یہ پہلا غار نہیں ہے بلکہ اس طرح کے غار فرانس کے جنوب اور شمالی اسپین میں ملے ہیں۔تا ہم بامبیرگ کے اس غار کی تاریخی حیثیت زیادہ ہے۔
رپورٹ: سائرہ ذوالفقار
ادارت: عدنان اسحاق