1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں ستارہٴ داؤد کو جلانا آزادی رائے سے باہر، تبصرہ

اینس پوہل (م۔ م)
12 دسمبر 2017

جرمنی کھلے پن اور باہمی برداشت والا ملک ہے۔ جو کوئی جرمنی میں رہنا چاہتا ہے، اسے ان متفقہ ملکی اقدار کا احترام بھی کرنا ہو گا، جن میں سامیت دشمنی کے خلاف جنگ بھی شامل ہے۔ ڈی ڈبلیو کی چیف ایڈیٹر اِینس پوہل کا لکھا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/2pDeC
برلن کے علاقے نوئے کؤلن میں اتوار دس دسمبر کے روز مظاہرین (اپنے بنائے ہوئے) ایک اسرائیلی پرچم کو نذر آتش کرتے ہوئےتصویر: picture alliance/dpa/Jüdisches Forum für Demokratie und gegen Antisemitismus e.V.

جرمنی میں عوام کے مظاہرہ کرنے کے حق کو بہت زیادہ تحفظ حاصل ہے۔ اس حق کو بہت سخت شرائط کے تحت ہی محدود کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے جرمن جمہوریت کو اس وقت بھی بہت زیادہ صبر کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، جب سڑکوں پر ایسے نعرے لگائے جاتے ہیں، جو اپنی اصل میں غیر جمہوری ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ غیر خوش کن نعرہ: ’’غیر ملکیو! یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘

Herbsttreffen der Medienfrauen 2017 Ines Pohl
ڈی ڈبلیو کی چیف ایڈیٹر اِینس پوہلتصویر: DW/P. Böll

جرمنی نے نازی آمریت کے دور سے یہ تکلیف دہ سبق سیکھا ہے کہ جب ریاست اپنے ناقدین کے منہ بند کر دے اور عوام کو سڑکوں پر احتجاج کی اجازت بھی نہ دی جائے تواس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ اسی لیے یہ بات بغیر کہے ہوئے خود بخود یقینی سمجھی جاتی ہے کہ مثال کے طور پر میرکل حکومت کے ناقدین کو بھی احتجاج کا حق حاصل ہے اور جرمنی میں ان فلسطینیوں کو بھی امریکی سفارت خانے کے سامنے اپنے غصے کے اظہار کا حق حاصل ہے، جو اس فیصلے پر ناراض ہیں کہ واشنگٹن اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

’مجرموں کا ملک‘ منہ نہیں موڑ سکتا

جرمن تاریخ جرمنوں کو اس بات کی پابند نہیں بناتی کہ وہ لامحدود طور پر ہر بات اور ہر کام کی اجازت دینے لگیں۔ معاملہ دراصل اس کے برعکس ہے۔ جرمنی ماضی میں کم از کم بھی چھ ملین یہودیوں کے قتل کا ذمے دار رہا ہے۔ نازی دور میں یہودیوں کے قتل عام یا ہولوکاسٹ کو چاہے کتنی ہی دیر کیوں نہ ہو جائے، سامیت دشمنی کے خلاف جنگ میں جرمنی کو ہمیشہ ہی اپنا خصوصی کردار ادا کرتے رہنا ہو گا۔ وہ ملک جہاں ماضی میں ایسے جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہو، منہ موڑ کر دوسری طرف تو دیکھ ہی نہیں سکتا، کہیں بھی نہیں اور خود اپنی ریاستی حدود کے اندر تو بالکل ہی نہیں۔

اسی پس منظر میں جرمنی میں یہ بات کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہو سکتی کہ اس ملک میں اسرائیل کا وہ قومی پرچم جلایا جائے، جس پر ستارہٴ داؤد بنا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جو جرمن معاشرے میں اپنے لیے تحفظ کے خواہش مند ہیں، جو اپنے لیے نئے وطن کی تلاش میں اس ملک میں آئے ہیں، انہیں بھی اس بات کا پابند ہونا پڑے گا۔ بات جرمن معاشرے میں اجتماعی اقدار کے اس بنیادی ستون کی ہے، جس پر کوئی بحث یا لے دے نہیں ہو سکتی۔

تارکین وطن کا ملک جرمنی

دوسرے معاشروں میں یہ معمول کی بات ہو سکتی ہے کہ اپنے مخالف یا مخالفین کو بے عزت کرنے کے لیے پرچم جلائے جائیں۔ لیکن جرمن آئین میں دوسروں کی عزت اور اقلیتوں کے تحفظ کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے۔ تعزیری طور پر اگر اس بات کو بہت لازمی نہ بھی سمجھا جائے، تو بھی یہ بات قطعی قابل قبول نہیں کہ جرمنی میں ترکی، روس، امریکا یا سعودی عرب کے پرچم جلائے جائیں، اس حقیقت سے قطع نظر کہ کوئی فرد یا گروپ کسی ملک کی حکومت پر کتنی شدید سے تنقید کرتا ہے۔

ایک ایسا ملک جہاں بہت بڑی تعداد میں تارکین وطن بھی رہتے ہیں، وہاں مل جل کر پرامن انداز میں رہنے کے عمل کا مستقبل صرف اسی صورت ممکن ہے کہ جرمنی کی مخصوص تاریخ سے حاصل کیے جانے والے سبق کبھی بھولے نہ جائیں۔ یہ سوچ اور رویہ ایک میراث ہے، جس کا اگر کوئی خود کو پابند نہیں بناتا، تو اس کے لیے جرمن معاشرے میں کوئی مستقبل ہو ہی نہیں سکتا۔ اس پر کوئی لے دے ممکن ہی نہیں ہے۔

صدر ٹرمپ کے یروشلم کے فیصلے کے خلاف مسلمانوں کے مظاہرے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں