1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں ایک جنونی کی اندھا دھند فائرنگ، سولہ افراد ہلاک

امجد علی11 مارچ 2009

بدھ کوجرمنی کے جنوب مغربی علاقے میں ایک سترہ سالہ مسلح نوجوان نے اپنے سابقہ اسکول میں اندھا دھند فائرنگ کر کے سولہ افراد کو ہلاک کر دیا۔ بعد میں وہ خود بھی پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا۔

https://p.dw.com/p/HA2Z
واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کمانڈوز کی ایک بڑی تعداد موقع پر پہنچ گئی تھیتصویر: AP

ابھی عالمی ذرائع ابلاغ میں امریکی ریاست الاباما میں ایک جنونی کی فائرنگ سے دَس افراد کی ہلاکت کی خبریں چل ہی رہی تھیں کہ جرمن شہر اشٹٹ گارٹ کے قریب واقع قصبے وننڈن کے ایک اسکول میں آج کی صبح بہت سے طلبہ کے لئے موت کا پیغام لے کرآئی۔ اِسی اسکول کے ایک سترہ سالہ سابق طالبِ علم ٹِم کے نے اپنے اسکول پہنچ کراندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، جس کے نتیجے میں دَس طلبہ اور تین اُستانیاں ہلاک ہو گئیں۔ قریبی قصبے وائی بلنگن کے مقامی اخبار سے تعلق رکھنے والے صحافی فرانک نِپ کاؤ نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا :''صبح ساڑھے نو بجے سیاہ کپڑوں میں ملبوس ایک مرد البروِل اسکول میں داخل ہوا اور اُس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، جس کے بعد وہ شہر کے مرکزی حصے کی جانب فرار ہو گیا۔ پولیس نے اسکول اور شہر کے وسطی حصے کی ناکہ بندی کر دی ہے اور حملہ آور کی تلاش جاری ہے۔‘‘

Amoklauf in Winnenden Baden Wuerttemberg
امدادی سرگرمیوں مصروف ایمبولینس گاڑیاںتصویر: AP

ایک طالبہ نے حملے کی تفصیلات کچھ یوں بتائیں:’’ہم کلاس میں بیٹھے تھے کہ فائرنگ کی آواز آئی، چار پانچ گولیاں چلیں۔ ساتھ ہی ہم نے دیکھا کہ پولیس کی بہت سی گاڑیاں آ گئیں، ایمبولینس کی گاڑیاں آ گئیں، سب آ گئے۔‘‘

حملہ آور نے اسکول سے فرار ہونے کے بعد ایک نفسیاتی کلینک کے قریب ایک شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پھر اُس نے ایک گاڑی اغوا کی اور اُس میں بیٹھ کر فرار ہونے کی کوشش کی۔ جب پولیس نے اُسے روکنے کی کوشش کی تو اُس نے مزید دو راہگیروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ بعد ازاں یہ سترہ سالہ نوجوان پولیس کی گولی سے خود بھی مارا گیا لیکن فائرنگ کے اِس تبادلے میں دو پولیس اہلکار بھی شدید زخمی ہو گئے۔ پولیس کے مطابق حملہ آور کے والدین کے پاس سولہ ہتھیار تھے، جو اُنہوں نے قانونی طور پر اپنے پاس رکھے ہوئے تھے۔ خاندانی امور سے متعلق وفاقی جرمن وزیر اُرسُلا فان ڈیئر لایَن نے اِس واقعے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔

''یہ خبر ہلا کر رکھ دینے والی ہے۔ کچھ سمجھ ہی نہیں آتی کہ انسان کہے تو کیا کہے۔ سب سے پہلے تو یہ سوچا جانا چاہیے کہ اس طرح سے واقعات سے بچنے کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے اور اسکولوں میں کیا تیاریاں کی جا سکتی ہیں۔ پوری دنیا میں اِس طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں تو یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ کیوں کوئی شخص اتنا جنونی ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی غور کیا جانا چاہیے کہ خاص طور پر اسکولوں میں کیسے اِس طرح کے ہولناک واقعات کا پہلے سے ادراک کیا جا سکتا ہے اوراِنہیں روکا جا سکتا ہے۔‘‘

Amoklauf in Winnenden Baden Wuerttemberg
فائرنگ کرنے والا جنونی نوجوان اسی اسکول کا سابقہ طالب علم بھی تھاتصویر: AP

اب سے کچھ دیر پہلے وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اِس واقعے پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’وِنن ڈَن کے البر وِل اسکول میں آج جو کچھ ہوا، اُس پر جرمنی میں بسنے والے تمام انسان آج گہرے صدمے سے دوچار ہیں۔ اِس بات کا ادراک کرنا نا ممکن ہے کہ کیسے چند سیکنڈز کے اندر اندر ایک خوفناک جرم کے ہاتھوں اسکول طلبہ اور اُستانیاں موت کے منہ میں چلے جائیں اور بے گناہ شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔‘‘

جرمن چانسلرنے کہا کہ اِس مشکل گھڑی میں وہ تمام مرنے والوں کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتی ہیں۔ آج پورا جرمنی سوگ کی کیفیت میں ہے اورمرنے والوں کو یاد کررہا ہے اوراُن کے لئے دعا کررہا ہے۔ اپریل دو ہزاردو میں جرمنی میں اس نوعیت کے شدید ترین واقعے میں شہرایرفُرٹ کے ایک اسکول میں بھی سترہ افراد مارے گئے تھے، جن میں خود حملہ آوربھی شامل تھا۔