1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی ميں 75 لاکھ ناخواندہ افراد

4 اکتوبر 2011

آج کے بچوں کی کتب کے مصنف ٹم تھيلو فيلمر ماضی ميں ايک صرف ’عملی لحاظ سے خواندہ شخص‘ شمار ہوتے تھے۔ يہ اصطلاح ايسے افراد کے ليے ہے، جواکا دکا جملے تو لکھ پڑھ سکتے ہيں ليکن کوئی پوری عبارت پڑھ اور سمجھ نہيں سکتے۔

https://p.dw.com/p/12kyu
ايک ناخواندہ شخص لکھنے کی مشق ميں
ايک ناخواندہ شخص لکھنے کی مشق ميںتصویر: picture alliance/dpa

 بچوں کی کتب کے ايک کامياب مصنف ٹم تھيلو فيلمر کی اپنے اسکول کے زمانے کی ياديں خوشگوار نہيں ہيں۔ يہ دور اُن کے ليے ايک بہت مشکل دور تھا اورايک بھاری بوجھ تھا۔ ايک طرف تو وہ اسکول کا بہت سا کام نہيں کر سکتے تھے اور دوسری طرف انہيں يہ بات دوسروں کی نظر سے پوشيدہ بھی رکھنا ہوتی تھی۔ ’’مجھے ہميشہ چالوں سے آگے بڑھنا ہوتا تھا۔ مجھے ہميشہ يہ خوف رہتا تھا کہ کہيں مجھے پکڑ نہ ليا جائے، کہيں ميں دوسروں کی نظروں ميں نہ آجاؤں۔‘‘ ٹم فيلمر کا کہنا ہے کہ يہ ايک بہت مشکل اورمنفی دور تھا۔

ہيمبرگ يونيورسٹی کے ايک تحقيقی مطالعے کے مطابق جرمنی ميں ناخواندہ افراد کی تعداد ساڑھے سات ملين يا 75 لاکھ ہے۔ ان ميں تقريباً 43 لاکھ ايسے ہيں،جن کی مادری زبان جرمن ہے۔ جرمنی کے بر سر روزگار افراد ميں سے 14 فيصد ناخواندہ ہيں۔

عالمی ناخواندگی کا ايک گراف
عالمی ناخواندگی کا ايک گراف

روزمرہ کی زندگی ميں چاليں

ناخواندہ افراد اپنی روزمرہ کی زندگی ميں مختلف طرح کی ترکيبوں اور چالوں سے کام ليتے ہيں تاکہ ان کی نا خواندگی کا راز فاش نہ ہونے پائے۔ مثال کے طور پر وہ کسی فارم کو بھرتے وقت يہ عذر کر ديتے ہيں کہ وہ عينک ساتھ لانا بھول گئے ہيں يا ہاتھ يا بازو ميں چوٹ آ گئی ہے۔ اکثر وہ اپنے کام سے متعلق عبارات کو زبانی ياد کر ليتے ہيں تاکہ انہيں يہ پڑھنا نہ پڑيں۔ اس طرح وہ معاشرے ميں سبکی اور شرم کی وجہ سے اپنے دوستوں، عزيزوں حتٰی کہ افراد خانہ سے بھی اپنی ناخواندگی کے راز کو چھپائے رکھتے ہيں۔

پہلے کی طرح اب بھی ناخواندگی کا موضوع جرمنی ميں شجر ممنوعہ ہے۔ مثال کے طور پر شہر بون کا تعليم بالغاں کا اسکول خواندگی کے کورس ميں حصہ لينے والے کسی بھی شخص تک ميڈيا کی رسائی کو ممکن نہيں بناتا۔ متعلقہ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ماضی ميں کورس ميں حصہ لينے والے جن نا خواندہ افراد تک ميڈيا کو رسائی دی گئی، وہ انٹرويو کے بعد پھر کورس ميں نہيں آئے۔ حالانکہ اس طرح انہوں نے ايک بہت اچھا موقع گنوا ديا۔

شہر کولون ميں ايک ناخواندہ خاتون
شہر کولون ميں ايک ناخواندہ خاتونتصویر: DW

تعليم بالغاں ہر مرض کی دوا؟

’خواندگی اور بنيادی تعليم‘ کی وفاقی انجمن کے سربراہ پيٹر ہوبرٹس کا کہنا ہے کہ ناخواندہ افراد کے ليے لکھنے پڑھنے کے کورس ميں حصہ لينا ايک بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے ايسے کورس ناخواندہ افراد کی ضروريات سے صحيح طور پر مطابقت بھی نہيں رکھتے۔ تعليم بالغان کے اسکولوں ميں يہ کورس ہفتے ميں صرف تين يا چار گھنٹوں کے ليے ہوتے ہيں۔ لکھنے پڑھنے کی صلاحيت پيدا کرنے والے کورسوں ميں صرف 20 ہزار افراد حصہ لے رہے ہيں۔ِ يہ ملازمت کرنے والوں کے ليے تو مناسب ہے ليکن بہت سے ناخواندہ افراد کے پاس بہت وقت ہوتا ہے اور ان کے ليے زيادہ گھنٹوں تک لکھنا پڑھنا سيکھنا کہيں زيادہ بہترہوتا۔

بہت سے نا خواندہ افراد خود اپنے آپ ہی کو قصوروار سمجھتے ہيں ليکن ٹم تھيلو فيلمر اسکول کے نظام کی طرف بھی توجہ دلاتے ہيں۔ کلاسيں بہت بڑی ہونے کی وجہ سے اساتذہ کو اکثر ايسے ًطالبعلموں پر انفرادی توجہ دينے کا موقع ہی نہيں ملتا، جو لکھنے پڑھنے ميں مشکلات سے دوچار ہوتے ہيں۔ فيلمر کو لکھنے پڑھنے ميں کافی استعداد حاصل کرنے ميں 10 سال لگے تھے۔ يہ ايک لمبا عرصہ ہے ليکن اُن کا کہنا ہے کہ اس سے انہيں بہت فائدہ ہوا ہے۔

رپورٹ: مہرنوش انتظاری / شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں