جرمنی ميں طلبا کے رہائشی انداز، چند جھلکياں
23 اگست 2011جرمنی ميں اس تعليمی سمسٹر سے لازمی فوجی تربيت کا ضابطہ ختم کر ديا گيا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے دو وفاقی صوبوں باويريا اور لوئر سيکسنی ميں ہائی اسکول کی تعليم کا عرصہ مختصر کرديا گيا ہے۔ اس وجہ سے اس سال کے موسم سرما کے سمسٹر ميں نيا داخلہ لينے والے طلبا کی تعداد بڑھ جائے گی۔ نتيجہ يہ ہوگا کہ اُن شہروں ميں، جن ميں يونيورسٹياں ہيں، رہائشی مواقع کی قلت پيدا ہو جائے گی۔
25 سالہ تيانا ميلووچ کا تعلق سربيا سے ہے۔ انہيں شہر کولون کے طلبا کی ديکھ بھال کے ادارے کی مدد سے ايک اسٹوڈنٹ ہوسٹل ميں کمرہ کرايے پر ملا ہے۔ تيانا نے اپنا کمرہ دکھاتے ہوئے کہا: ’’نمبر 23 ، يہ ميرا کمرہ ہے۔ ايک طرف يہ کتابوں کا شيلف ہے۔ دوسری طرف واش بيسن ہے۔ يہ کپڑوں کی الماری اور يہ ايک فرد کے ليے بستر ہے۔ ايک طرف ايک ميز ہے۔ کمرہ 10 يا 11 مربع ميٹر سے بڑا نہيں ہے۔ ميرے مزاج کے لحاظ سے يہ چھوٹا ہے۔‘‘
ليکن تيانا کی بد قسمتی ہے کہ انہيں فوجی چھاؤنی کی طرح کے ايک پرانے ہوسٹل ميں جگہ ملی ہے، جو اب بہت کم ہی رہ گئے ہيں۔ ايک تاريک سی راہداری کے دونوں اطراف يہ کمرے ہيں۔ اجتماعی يا مشترکہ غسل خانہ بھی کچھ اچھی حالت ميں نظر نہيں آتا۔ ليکن عام طور پر آج طلبا جن ہوسٹلوں ميں رہتے ہيں وہ اس سے کہيں زيادہ آرام دہ ہيں۔ شہر کولون کے ادارہء طلبا کی ترجمان کورنيليا گيريکے نے کہا: ’’ہمارے اسٹوڈنٹ ہوسٹل ميں مکمل طور پر آراستہ باورچی خانے، دو غسل خانے اور تقريباً ہر جگہ بالکنياں بھی ہيں۔ ہر کمرہ کم ازکم 17 مربع ميٹر کا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے کمرے کے کرايے بھی عام کرايوں سے کم ہيں۔‘‘
کولون کے ادارہء طلبا ميں موسم سرما کے سمسٹر کے آغاز سے پہلے ہی طلبا کا ہجوم دیکھا جا رہا ہے۔ ہر طالبعلم اچھے کمرے يا فليٹ کی کوشش ميں لگا ہوا ہے۔
جرمن ادارہء طلبا کے مطابق جرمنی کے طالبعلموں ميں سے 12 فيصد اسٹوڈنٹ ہوسٹلوں ميں رہتے ہيں۔ جنہیں ہوسٹلوں میں سستے کمرے نہيں مل پاتے وہ کرايے کے عام کمروں ميں رہتے ہيں۔ 37 فيصد جرمن طلبا اکيلے يا اپنی بیویوں کے ساتھ رہتے ہيں۔ ان ميں سے ايک چوتھائی اجتماعی فليٹس ميں يا اپنے والدين کے ساتھ زندگی گذارتے ہيں۔ طب کے طالبعلم ہارولڈ اشٹيگو وائٹ ايک سمسٹر بيرون ملک گذارنے کے بعد پھر اپنی والدہ کے مکان ميں منتقل ہو گئے ہيں: ’’يہ دراصل وقت کی ضرورت ہے کيونکہ ايک طالبعلم کی حيثيت سے اپنی والدہ کے ساتھ رہنا ميرے ليے سستا ہے۔‘‘
ہارولڈ کی والدہ يونيورسٹی سے قريب ہی رہتی ہيں اور يہاں انہيں کرايہ بھی نہيں دينا پڑتا۔ ہارولڈ نے کہا کہ گھر پر ہميشہ انہيں بچہ ہی سمجھا جاتا ہے اور اس قسم کے سوالات برداشت کرنا پڑتے ہيں کہ تم 12 بجے سے پہلے گھر کيوں نہيں آ جاتے۔
شہر کولون ميں اسٹوڈنٹ ہوسٹلوں ميں رہنے والے غير ملکی طلبا کا تناسب تقريباً 37 فيصد ہے، جن کا تعلق دنيا کے مختلف ملکوں سے ہے۔
رپورٹ: سُو زانے کورڈس / شہاب احمد صديقی
ادارت: عابد حسين