1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی ميں سياسی پناہ کا دارومدار، متلاشی فرد کے آبائی ملک پر

عاصم سليم28 ستمبر 2015

سياسی پناہ حاصل کرنے کی ليے درخواست کی منظوری پيچيدہ قانونی معاملہ ہے۔ يورپی ملک جرمنی ميں سياسی پناہ ملنے کا دارومدار کافی حد تک اس پر ہے کہ درخواست جمع کرانے والے کا تعلق کس ملک سے ہے۔

https://p.dw.com/p/1GehK
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

ان دنوں خانہ جنگی سے متاثرہ ممالک شام اور عراق کے علاوہ افغانستان، پاکستان اور چند افريقی ملکوں سے بھی لاکھوں افراد سياسی پناہ کی تلاش ميں يورپ کا رخ کر رہے ہيں۔ جرمنی ميں ايسے افراد کی درخواستوں کا جائزہ لينے کے ليے متعلقہ وزارت نے ملکوں کو تين مختلف درجوں ميں تقسيم کر ديا ہے۔

’ہائی ريٹ آف پروٹيکشن‘ والے ممالک

جرمن وزارت برائے مہاجرين اور ہجرت سياسی پناہ کے متلاشی افراد کی درجہ بندی کے ليے ’ريٹ آف پروٹيکشن‘ کے الفاظ استعمال کرتی ہے۔ جرمنی ميں قيام کے ليے درخواستيں منظور ہونے يا نا ہونے کا دارومداد اس پر ہے کہ درخواستيں جمع کرانے والوں کا تعلق کن ممالک سے ہے۔ اس ہی بنياد پر درخواست دہندگان کو باقاعدہ سياسی پناہ دی جاتی ہے يا انہيں مہاجر کی حيثيت دی جاتی ہے يا پھر محض کچھ عرصے کے ليے رہنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر شام ميں جاری خانہ جنگی کے سبب، اس کا ’ريٹ آف پروٹيکشن‘ 100 فيصد ہے اور شامی باشندوں کو سياسی پناہ دیے جانے کے امکانات کافی روشن ہيں۔ لبنان ميں مختلف مقامات سے براہ راست جرمنی لائے جانے والے شامی مہاجرين کے ليے تو يہ بھی ضروری نہيں کہ وہ باقاعدہ درخواستيں جمع کرائيں۔ انسانی بنيادوں پر انہيں ايک کوٹے کے تحت فوری طور پر عارضی رہائش کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

Deutschland minderjährige Flüchtlinge Symbolbild
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Kaiser

اسی طرح عراق کے مختلف حصوں ميں بھی خانہ جنگی جاری ہے اور اس شورش زدہ ملک سے پناہ لے متلاشی افراد کا ’ريٹ آف پروٹيکشن‘ 90 فيصد ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ عراقی باشندوں کے ليے بھی سياسی پناہ کی وصولی کے امکانات اچھے ہيں۔ افريقی ملک اریتريا ميں ’جابرانہ‘ حکومت کا راج ہے اور اس ملک کے شہریوں کے لیے ’ريٹ آف پروٹيکشن‘ 80 فيصد ہے۔

شام اور اریتريا کے باشندوں سميت مسيحی، ميڈين اور ایزدی برادريوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے ليے اکثر اوقات يہ تک ضروری نہيں ہوتا کہ وہ سياسی پناہ کے ليے اپنی درخواستوں ميں وجوہات بيان کرنے کے ليے متعلقہ حکام کے سامنے حاضر ہو کر خصوصی بيان ديں۔ وقت بچانے کے ليے ايسے افراد سياسی پناہ کے ليے درخواست ميں وجوہات تحريری صورت ميں بھی دے سکتے ہيں۔

واضح رہے کہ درخواست دہندگان کی شناخت کے حوالے سے ’قابل جواز شکوک و شبہات‘ کی صورت ميں متعلقہ جرمن وزارت درخواست مسترد بھی کر سکتی ہے۔ ايسا اس وقت بھی ممکن ہے کہ جب درخواست دہنگان کے پاس سياسی پناہ کے ليے کوئی ٹھوس وجہ نہ ہو يا پھر سياسی پناہ کی ذمہ داری کسی اور ملک کی ہو۔

’ميڈيم ريٹ آف پروٹيکشن‘ والے ممالک

اس درجہ بندی ميں شامل ممالک سے تعلق رکھنے والوں کی درخواستيں قبول ہونے کے امکانات درميانے درجے کے ہيں اور ان کا دارومدار کافی چيزوں پر ہوتا ہے۔ ايسے ملکوں کے باشندوں کو انفرادی طور پر يہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ سياسی پناہ کے مستحق کيوں ہيں۔ عدم استحکام اور سلامتی کی خراب صورتحال جرمنی ميں سياسی پناہ حاصل کرنے کے ليے ناکافی وجوہات ہيں اور درخواست دہندگان کو اپنے ليے براہ راست خطرہ ثابت کرنا پڑتا ہے۔

اس گروپ ميں افغان شہری سر فہرست ہيں۔ افغانستان کا ’ريٹ آف پروٹيکشن‘ 40 فيصد ہے جبکہ پاکستان کا 12فیصد اور نائجيريا کا چھ فيصد۔ اس گروپ ميں ديگر کئی ممالک شامل ہيں تاہم ان کے ’ريٹ آف پروٹيکشن‘ کی شرح کافی کم ہے۔

کافی کم يا ’لو ريٹ آف پروٹيکشن‘ والے ممالک

مشرقی بلقان کے ممالک کے شہريوں کے ليے ان دنوں جرمنی ميں سياسی پناہ حاصل کرنا کافی دشوار ہے تاہم اس کے باوجود ان ملکوں سے ايک بڑی تعداد ميں لوگ سياسی پناہ کی درخواستيں جمع کراتے ہيں۔ جرمن حکومت پہلے ہی سربيا، مقدونیہ اور بوسنيا کو محفوظ قرار دے چکی ہے۔ جرمنی کی قدامت پسند سياسی جماعتيں CDU اور CSU کوسووہ، البانيا، اور مونٹينيگرو کو بھی اس فہرست ميں شامل کرنا چاہتی ہيں تاہم گرين پارٹی کا موقف ہے کہ ان ممالک ميں روما کميونٹی کے ساتھ امتيازی سلوک کی وجہ سے ان ممالک کو تاحال محفوظ قرار نہيں ديا جا سکتا۔

اس وقت يورپی يونين کے تمام رکن ممالک نے اپنی اپنی فہرستيں تيار کر رکھی ہيں، جن ميں يہ انفرادی طور پر ممالک کو محفوظ يا غير محفوظ ہونے کا درجہ ديتے ہيں۔ يورپی کميشن خواہاں ہے کہ تمام رکن ملکوں ميں محفوظ ممالک کی ايک يکساں فہرست ہو۔