جرمنی: فائرنگ میں جاں بحق ہونے والی طالبہ کی تدفین
15 مارچ 2009گزشتہ ہفتے پیش آنے والے اس واقعے میں ایک سترہ سالہ لڑکے نے اسکول میں داخل ہو کر اندھا دھند فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں اسکول کے طلباء سمیت چودہ افراد جاں بہ حق ہوگئے تھے۔ ان میں سے ایک سولہ سالہ طالبِ علم کی تدفین میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔
سوگواروں میں اس واقعے میں ہلاک ہونے والے طلباء کے ساتھی بھی شامل تھے۔ جرمنی اس واقعے کے بعد قومی سوگ میں ہے۔ اس واقعے کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بربریت سے بھر پور واقعہ قرار دیا تھا اور جرمنی کے قومی پرچم کو سر نگوں کردیا گیا تھا۔
جرمنی میں سن دو ہزار دو کے بعد اسکول فائرنگ کا یہ سب سے خوفناک واقعہ تھا۔
جرمن شہر اشٹٹ گارٹ کے قریب واقع قصبے ونیندین کے ایک اسکول میں اسکول کے ایک سترہ سالہ سابق طالبِ علم ٹِم کے نے اسکول پہنچ کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی تھی جس کے نتیجے میں نو طلبہ اور تین اُستانیاں ہلاک ہو گئیں۔
قریبی قصبے وائبلنگن کے مقامی اخبار سے تعلق رکھنے والے صحافی فرانک نِپ کاؤ نے اس واقعے کی تفصیلات یوں بیان کی تھیں : ’’صبح ساڑھے نو بجے سیاہ کپڑوں میں ملبوس ایک مرد البروِل اسکول میں داخل ہوا اور اُس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، جس کے بعد وہ شہر کے مرکزی حصے کی جانب فرار ہو گیا۔ پولیس نے اسکول اور شہر کے وسطی حصے کی ناکہ بندی کر دی ہے اور حملہ آور کی تلاش جاری ہے۔‘‘
ایک طالبہ نے حملے کی تفصیلات کچھ یوں بتائیں:’’ہم کلاس میں بیٹھے تھے کہ فائرنگ کی آواز آئی، چار پانچ گولیاں چلیں۔ ساتھ ہی ہم نے دیکھا کہ پولیس کی بہت سی گاڑیاں آ گئیں، ایمبولینس کی گاڑیاں آ گئیں، سب آ گئے۔‘‘
حملہ آور نے اسکول سے فرار ہونے کے بعد ایک نفسیاتی کلینک کے قریب ایک شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پھر اُس نے ایک گاڑی اغوا کی اور اُس میں بیٹھ کر فرار ہونے کی کوشش کی۔ جب پولیس نے اُسے روکنے کی کوشش کی تو اُس نے مزید دو راہگیروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ بعد ازاں یہ سترہ سالہ نوجوان پولیس کی گولی سے خود بھی مارا گیا لیکن فائرنگ کے اِس تبادلے میں دو پولیس اہلکار بھی شدید زخمی ہو گئے۔ پولیس کے مطابق حملہ آور کے والدین کے پاس سولہ ہتھیار تھے، جو اُنہوں نے قانونی طور پر اپنے پاس رکھے ہوئے تھے۔
خاندانی امور سے متعلق وفاقی جرمن وزیر اُرسُلا فان ڈیئر لایَن نے اِس واقعے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا :''یہ خبر ہلا کر رکھ دینے والی ہے۔ کچھ سمجھ ہی نہیں آتی کہ انسان کہے تو کیا کہے۔ سب سے پہلے تو یہ سوچا جانا چاہیے کہ اس طرح سے واقعات سے بچنے کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے اور اسکولوں میں کیا تیاریاں کی جا سکتی ہیں۔ پوری دنیا میں اِس طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں تو یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ کیوں کوئی شخص اتنا جنونی ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی غور کیا جانا چاہیے کہ خاص طور پر اسکولوں میں کیسے اِس طرح کے ہولناک واقعات کا پہلے سے ادراک کیا جا سکتا ہے اور اِنہیں روکا جا سکتا ہے۔‘‘