1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی، دیگر ملکوں میں متحدہ یورپ کے حق میں بڑے عوامی مظاہرے

مقبول ملک
3 اپریل 2017

جرمنی سمیت کئی یورپی ملکوں کے بہت سے شہروں میں لاکھوں شہریوں نے اتوار دو اپریل کے روز متحدہ یورپ کے حق میں مظاہرے کیے۔ عوامی سطح پر ان مظاہروں کے ہر ہفتے انعقاد کا سلسلہ گزشتہ برس کے آخر میں شروع کیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/2aX4R
Deutschland Pulse of Europe - Köln
تصویر: picture alliance/dpa/F. Gambarini

جرمن دارالحکومت برلن سے ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اتوار دو اپریل کے روز ان مظاہروں کا اہتمام جرمنی سمیت یورپی یونین کے کئی دیگر رکن ملکوں میں بھی کیا گیا اور ان کا مقصد متحدہ یورپ کے تصور کے لیے عملی تائید و حمایت کا اظہار تھا۔

ان عوامی مظاہروں کے اہتمام کا سلسلہ 2016ء کے آخر میں عوامی سطح پر کام کرنے والی ایک تنظیم ’پَلس آف یورپ‘ یا ’یورپ کی نبض‘ کی طرف سے شروع کیا گیا تھا، جو اب کئی یورپی ملکوں میں پھیل چکی ہیں۔

برطانیہ کے ساتھ تعلقات پر متوازی بات چیت نہیں ہو سکتی، میرکل

بریگزٹ کے فوری بعد بھارتی برطانوی تجارتی معاہدے کا امکان کم

برطانیہ نے یورپی یونین سے ’طلاق‘ کی دستاویز پر دستخط کر دیے

اتوار چھبیس مارچ کی طرح کل اتوار دو اپریل کے دن بھی برلن میں ایسے ہی ایک مظاہرے میں ہزار ہا شہریوں نے حصہ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی طرف سے متحدہ یورپ کے حق میں آواز بلند کرنے کا مقصد یہ سوچ ہے کہ یورپی ریاستوں میں بڑھتی ہوئی قوم پسندانہ ذہنیت کی مخالفت کی جانا چاہیے اور ان سیاسی قوتوں کا مقابلہ کیا جانا چاہیے، جو ایک بلاک کے طور پر یورپی یونین کی مخالفت کرتی ہیں۔

London Pro Europa Demonstration
مارچ کے آخری اتوار کے روز لندن میں اہتمام کردہ پَلس آف یورپ کے عوامی مظاہرے کی ایک تصویرتصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas

یورپی یونین کے رکن ملکوں میں، چاہے وہ جرمنی اور فرانس ہوں یا پھر اٹلی اور ہنگری جیسی ریاستیں، ان مظاہروں کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس کی وضاحت کل دو اپریل کو برلن کے مظاہرے میں شریک ایک بزرگ جرمن شہری کرسٹیان کے موقف کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔

گزشتہ قریب نصف صدی سے اپنی اہلیہ کے ساتھ برلن میں رہنے والے اس جرمن شہری نے کہا، ’’ہم نے اس شہر کی تقسیم بھی دیکھی ہے، دیوار برلن کا گرایا جانا اور سرد جنگ کا خاتمہ بھی۔ اب آئندہ نسلوں کے لیے قوم پسندی کے حق میں اور یورپی اتحاد کے منافی سوچ کے تحت نئی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی سوچ کو محض ایک ڈراؤنا خواب ہی کہا جا سکتا ہے۔ ہم اسی سوچ کی مخالفت کے لیے ان مظاہروں میں شرکت کرتے ہیں۔‘‘